سنہ 1979 کا اسلامی انقلاب ایران میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لے کر آیا، لیکن کم از کم خواتین کے لیے نہیں۔ خواتین کا لباس اور بال بنانے کا طریقہ ایک ایسا شعبہ ہے جو جانچ پڑتال کے تحت آیا ہے۔ سابقہ شاہ نے سنہ 1930 میں نقاب پر نہ صرف پابندی لگادی تھی بلکہ پولیس کو زبردستی اسکارف کھینچ لینے کا حکم صادر کیا تھا۔ لیکن سنہ 1980 کے اوائل میں نئی اسلامی حکومت نے ایک ضابطہ لباس نافذ کیا، جس کے تحت خواتین کا حجاب پہننا لازم قرار دیا گیا۔
یہاں کچھ ایسی تصاویر موجود ہیں جو مذہبی قواعد کے رائج ہونے سے پہلے، ایرانی عورتوں کی زندگی دکھاتی ہیں اور اس کے بعد سے یہ کس طرح تبدیل ہوئی۔
انقلاب سی پہلے
سنہ 1977 میں تہران یونیورسٹی میں پڑھائی:
حالانکہ بہت سی خواتین انقلاب سے پہلے ہی اعلی تعلیم حاصل کر رہی تھیں، لیکن آنے والے برسوں میں ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا. اور یہ اس لیے ممکن ہوا کیونکہ حکام قریبی دیہی علاقوں میں رہنے والے قدامت پسند خاندانوں کو اس بات پر قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو گھر سے دور پڑھنے بھیج سکیں۔
بارونس ہالے افسر، یارک یونیورسٹی میں عورتوں کی تعلیم کے پروفیسر جو سنہ 1960 کے دوران ایران میں پلے بڑھے تھے، وہ کہتے ہیں ‘انھوں نے یونیورسٹی میں خواتین کی شرکت کو روکنے کی کوشش کی تھی، لیکن اس پر اتنا سخت ردِعمل ظاہر ہوا کہ انہیں خواتین کو واپس آنے کی اجازت دینی پڑی۔‘
‘بعض تعلیم یافتہ افراد نے ایران چھوڑ دیا اور حکام کو احساس ہوا کہ ملک چلانے کے لیے مردوں اور عورتوں دونوں کو تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔‘
سنہ 1979 کے ایران میں ونڈو شاپنگ:
انقلاب سے پہلے، بہت سے خواتین مغربی طرز کے لباس پہنتی تھیں، جن میں تنگ فٹنگ والی جینز، منی سکرٹس اور مختصر بازوؤں والی قمیضیں شامل تھیں۔ پروفیسر افشار کے مطابق ’جوتے تبدیل نہیں ہوئے اور جوتوں کا شوق ہم سب میں ہے! ایرانی خواتین باقی دنیا کی خواتین سے مختلف نہیں ہیں اور شاپنگ پر جانا عورتوں کے لیے روزمرہ کی پریشاینوں سے بھاگنے کا ایک ذریعہ ہے۔‘
سنہ 1976 کے تہران میں جمعہ کی پکنک:
خاندان اور دوست جمعہ کے روز اکھٹے ہوتے ہیں جو ایران میں ہفتے کے اختتام کے دن ہیں۔ پروفیسر افشار کا کہنا ہے کہ ‘پکنک ایرانی ثقافت کا ایک اہم حصہ ہے اور درمیانی طبقات کے درمیان بہت مقبول بھی۔ اس میں انقلاب سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ فرق صرف یہ ہے کہ آج کل ساتھ بیٹھے مرد اور عورت، پہلے کی نسبت زیادہ چوکنے ہیں اور آپس کے میل جول میں زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‘
سنہ 1976 کے تہران میں ہیئر سیلون:
‘یہ ایک ایسا منظر ہے جو آپ کو لگتا ہو گا کہ آج کے ایران میں دیکھنے کو نہیں ملے گا لیکن اسلامی انقلاب کے بعد بھی، ہیئر ڈریسرز موجود رہے` یہ خیال ہے پروفیسر افشار کا۔
’آج کل آپ ہیرڈریسرز کے اندر کوئی آدمی نہیں دیکھیں گے اور عورتوں کو معلوم ہے کہ دروازے سے باہر نکلنے سے پہلے انہیں اپنے بال ڈھکنے ہیں۔ کچھ لوگ شاید اپنے گھروں میں خفیہ سیلون بھی چلاتے ہوں جہاں مرد اور عورتیں آپس میں مِل جُل سکتے ہیں۔‘
سنہ 1977 میں شاہ کے اردگرد محافظوں کا ہجوم:
فارسی سلطنت کی 2500 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقد کی گئی ایک بڑی تقریب کے دوران، ایک نوجوان خاتون کی شاہ محمد رضا پہلوی تک رسائی۔ بائیں بازو کی جماعتوں اور شاہ کے مذہبی مخالفین نے اس غیر معمولی تقریب کی بڑے پیمانے پر مذمت کی تھی۔ پروفیسر افشار کہتے ہیں ‘اس وقت تک شاہ بہت ناپسندیدہ بن چکے تھے اور بعض لوگوں کے مطابق، ممکن ہے یہ دکھاوا ان واقعات میں سے ایک ہو جو آٹھ سال بعد ہونے والے انقلاب کے قیام کی وجہ بنے۔`
سنہ 1976 کے تہران میں ایک برفیلی سڑک پر چہل قدمی:
پروفیسر افشار کہتے ہیں ‘آپ ایران کی سڑکوں پر چلنے والی خواتین کو روک نہیں سکتے، لیکن ایسا منظر آپ آج کل نہیں دیکھ پائیں گے ۔ ان کے کان کی بالیاں اور میک اپ واضح طور پر دکھائی دے رہا ہے۔ ایران میں لباس کے حوالے سے ‘شرافتکا ایک تصور بنا دیا گیا ہے۔ لہذا آج کل سڑکوں پر چلنے والی عورتیں گھٹنوں تک لمبا کوٹ اور سکارف پہننے نظر آتی ہیں۔
انقلاب کے بعد
سنہ 1979 میں حجاب کے خلاف عورتوں کی ریلی:
اقتدار میں آنے کے فوراً بعد، ایران کے نئے روحانی پیشوا آیت اللہ روح اللہ خامنہ ای نے فیصلہ کیا کہ مذہب اور قومیت کی تفریق کے بغیر، تمام عورتیں پردہ کریں گی۔ 8 مارچ کو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر، زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والی ہزاروں خواتین نے اس قانون کے خلاف احتجاج کیا۔
سنہ 1979 میں امریکی سفارت خانے کے باہر احتجاج:
انقلابی طالب علموں نے امریکی سفارتخانے کے عملے کے درجنوں افراد کو یرغمال بنا لیا جبکہ ہزاروں امریکا مخالف مظاہرین نے سفارتخانے کی عمارت کو گھیرے میں لے لیا۔
پروفیسر افشار کہتے ہیں کہ ’اُس وقت مختلف نظریات کے افراد کا امریکہ کی مکمل نفرت میں متحد ہو جانا، ایک عام سی بات تھی۔ ایران سے تیل لے جانے میں امریکہ اور برطانیہ دونوں ممالک ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں۔ لہٰذا امریکہ اور برطانیہ سے اس سخت بے اعتمادی کی، تاریخ بہت پرانی ہے۔‘
سنہ 1980 میں جمعے کی نماز کو جاتے ہوئے ایک خاندان:
‘جمعہ کی نماز ان لوگوں کے لیے ایک موقع ہوتا ہے جو اسلامی احکامات کے پابند ہیں یا ایسے حامی جو ایک ساتھ باہر جا کر باغیوں کے لیبل نہیں لگوانا چاہتے۔
پروفیسر افشار اسے ایک یکجہتی کا لمحہ مانتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ‘یہ ابھی بھی بہت حد تک مرد ڈومین کے اندر ہے۔ عورتوں کو مردوں والے کمرے میں جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ وہ نماز کے لیے مردوں سے دور، علیحدہ جگہ پر بیٹھیں گی۔‘
سنہ 1986 کیے تہران میں شادی کے لباس کی خریداری:
پروفیسر افشار کہتے ہیں ’ڈسپلے پر شادی کے تمام کپڑے مغربی ہیں۔ ایرانی خواتین جب تک دروازے کے پیچھے ہیں جو ان کا دل چاہے گا وہی پہنیں گی۔ شادیوں کی تقریبات کو الگ الگ سمجھا جاتا ہے، لہٰذا اگر وہاں صرف خواتین مہمان موجود ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ نے کیسا لباس پہنا ہوا ہے۔ لیکن مخلوظ جنسی پارٹیاں ابھی تک چلتی ہیں۔ کچھ لوگ دروازے پر دیکھنے کے لیے باؤنسرز کو اجرت پر رکھتے ہیں، اور باقی مقامی پولیس کو دوسری طرف دیکھنے کی ادائیگی کرتے ہیں۔‘
سنہ 2015 کے تہران میں چہل قدمی:
ایران میں تمام عورتیں سیاہ چادر نہیں پہنتیں، کچھ ایسا چغہ پہنتی ہیں جو جسم کو سر سے پیر تک ڈھک دے اور صرف چہرے کو بے نقاب رہنے دے۔ کچھ کھلے سکارف اور کوٹ پہننے کو ترجیح دیتی ہیں۔ پروفیسر افشار کا کہنا ہے ‘اصل سوال یہ ہے کہ آپ اپنے سکارف کو کتنا پیچھے تک کھسکا سکتی ہیں؟ خواتین کے پاس مزاحمت کے اپنے چھوٹے چھوٹے طریقے ہیں اور اکثر ان کی کوشش ہوتی ہے کہ سکارف کو جتنا پیچھے تک ممکن ہو سکے، کھسکالیں۔‘
سنہ 2005 میں کیسپین سمندر کا ساحل:
عوامی مقامات پر ایرانی خواتین کے لیے تیراکی کے لباس پہننا سخت ممنوع ہیں۔ پروفیسر افشار کہتے ہیں ‘مردوں اور عورتوں کی ایک ساتھ تیراکی نہیں ہونی چاہیے۔ لیکن وہ کشتیاں کرایہ پر حاصل کر کے اور انہیں سمندر میں دور لے جاکر، جہاں وہ اکھٹے تیر سکیں،اس میں بھی راستہ نکال لیتے ہیں۔‘
تہران میں سنہ 2016 میں حجاب کے حق میں ریلی:
انقلاب کے 25 سے زائد برس بعد، سخت قدامت پسندوں کی حامی خواتین نے اجتماعی حجاب قانون کے نفاذ میں حکام کی ناکامی پر احتجاج کے لیے، اپنی ریلی نکالی۔ یہاں ایک چھوٹی سی لڑکی کے علاوہ تمام خواتین نے سیاہ چادریں پہنی ہوئی ہیں۔
سنہ 2008 میں ایک شاپنگ سینٹر کی چھت سے فٹ بال میچ دیکھتی خواتین:
اگرچہ ایران میں خواتین کو کبھی بھی مردوں کے فٹ بال میچ دیکھنے سے سرکاری طور پر منع نہیں کیا گیا، لیکن ان کو اکثر اسٹیڈیم میں داخلے سے انکار کر دیا جاتا ہے اور جنہوں نے ایسی کوششیں کیں، انہیں حراست میں لیا گیا ہے۔ انقلاب سے پہلے، خواتین کو کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کرنے کی اجازت تھی۔