ویلنٹائن ڈے ہماری عوام کے اعصاب پر کس طرح سوار ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ماہ جنوری کے ابتدائی ایام چل رہے تھے کہ خبر آئی کہ اس بار 14 فروری کو جی سی یورنیورسٹی فیصل آباد ”سسٹرز ڈے“ کے طور پر منائے گی۔ یقیناً ایسے اعلان کا مقصد معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور غیر اسلامی شعار کے خلاف عملی اقدامات اٹھانا تھا۔ کہنے کو تو یہ کسی ایک یورنیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے اٹھایا جانے والا ایک انفرادی اقدام تھا مگر جہاں سوشل میڈیا پر اس اعلان کا خوب پوسٹ مارٹم ہوا وہیں اس کی حمایت میں بولنے والوں نے بھی زمین و آسمان کے قلابے ملانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔
ویلنٹائن ڈے کی مخالفت میں بولنے والوں کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ یہ ایک مغربی تہوار ہے جو ہماری ثقافت سے میل نہیں کھاتا، اس میں بے رہ روی کا عنصر نمایاں ہے۔ وہیں اس تہوار کی حمایت میں بولنے والوں نے اس کے مقابلے منائے جانے والے سسٹرز ڈے کو ہندوؤں کے تہوار ”راکھی“ سے مماثل کہہ دیا اور دلیل دی کہ چلو 14 فروری انگریزوں کا تہوار نہ سہی ہندو تہوار سمجھ کر منا لیتے ہیں کیونکہ انگریز کی نسبت ہندو تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ہمارے زیادہ قریب ہیں۔ وہیں اکثر دلچسپ تبصرے بھی سننے کو ملے جیسے اگر آپ کو 14 فروری تک کوئی مل جائے تو مناسب ورنہ یقین کر لیجیے کہ یہ تہوار ہے ہی حرام۔
یہاں اک بات جو لوگ اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اکیسویں صدی میں دنیا نے سمٹ کر اک گلوبل ولیج کی سی شکل اختیار کر لی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ مختلف معاشروں اور ممالک کے لوگ آپس میں رچ بس جا رہے ہیں۔ ہمارا اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، اوڑھنا بچھونا، ضروریات زندگی، لائف سٹائل میں اس قدر یکسانیت آ رہی ہے کہ کلچر نام کے لفظ کے معنی بے حد وسیع ہو گئے ہیں۔ ایسے گلوبل ولیج میں کوئی تہوار کسی کا ذاتی تہوار نہیں ہے۔
یہ کیسی منافقت ہے کہ ہم نیو ائیر سے لے کر سال کے اختتام تک کئی ایسے تہوار مناتے چلے جاتے ہیں جن کی ابتدا یورپ سے ہوئی، ہماری برتھ ڈیز سے موت تک سینکڑوں بار ہم ایسے تہوار مناتے ہیں جو ہماری تہذیب اور مذہب سے تعلق نہیں رکھتے مگر ہر بار ہم 14 فروری پر ہی کیوں آ کر اٹک جاتے ہیں؟ صرف اس تہوار پر ہی ہمیں یہ خدشہ کیوں ان دبوچتا ہے کہ مغرب ہماری نوجوان نسل کو سوچی سمجھی سازش کے تحت بھٹکانے کی کوشش کر رہا ہے؟
اصل میں یہ بحث ہی فضول ہے کہ ویلنٹائنز ڈے منایا جائے یا نہیں۔ تہوار کوئی زندگی موت کا مسئلہ تھوڑی ہوتا ہے۔ آسان حل ہے جو منانا چاہے شوق سے منائے جو معترض ہے نہ منائے۔ ہمارے ہاں خدائی فوجدار بننے کا مرض اس قدر عام ہے کہ خدا کی پناہ۔ عجیب کلچر ہے جہاں دوسروں کی بس اس حرکت پر نظر رکھی جاتی ہے کہ کس کا کس کے ساتھ افئیر ہے؟ کون کس سے ملتا ہے؟ کس سے محبت کرتا ہے؟ سب کی مجموعی غیرت ہڑبڑا کر اٹھتی ہے جب اسے علم ہو کہ دو لوگوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔
اصل میں ہماری معاشرتی گھٹن کا یہ لیول ہے کہ پیٹرول پمپ پر جائیں تو موٹر سائیکل پر ساتھ بیٹھی خواتین کو پیچھے اتار کر جاتے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں پیٹرول پمپ پر کھڑا آپریٹر چند سیکنڈز میں ہی ہماری خواتین کا نظروں سے پوسٹ مارٹم کر دے گا۔ بے راہ روی کا تعلق کسی تہوار منانے سے نہیں ہے۔ بے حیائی کسی کا سکرٹ پہننا یا دو لوگوں کا افیئر نہیں ہے کم تولنا، ٹریفک رولز توڑنا، ملاوٹ کرنا بے حیائی ہے۔ بے راہ روی کسی کو پھول دینا نہیں ہے بلکہ ٹیکس چوری کرنا، جھوٹ بولنا، شادی غمی پر ٹینٹ لگا کر راستے روکنا بے راہ روی ہے۔ الزام تراشی، بہتان لگانا، ظلم کرنا، جھوٹی گواہی دینا، اختیارات کا ناجائز استعمال اور تجاوزات قائم کرنا حرام ہے۔ مگر افسوس شدت پسندی پر مائل معاشروں میں ہمیشہ محبت اور امن کی بات کرنا ہی ناقابل معافی جرائم گردانے جاتے ہیں۔