جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم کے روبرو محمد عمیر ولد محمد خلیل کا تحریری بیان کچھ یوں ہے کہ انیس جنوری کو میں، ماں نبیلہ ، پاپا خلیل ، بڑی بہن اریبہ اور دو چھوٹی بہنیں منیبہ اور ہادیہ صبح تقریباً آٹھ بجے سفید آلٹو گاڑی میں نکلے جسے ہمارے ہمسائے انکل ذیشان چلا رہے تھے۔
جب ہماری گاڑی ساہیوال قادر آباد کے قریب پہنچی تو پیچھے سے اچانک کسی نے ہماری گاڑی پر فائرنگ کی اور گاڑی فٹ پاتھ سے ٹکرا کے رک گئی۔ پولیس کے دو ڈالے تیزی سے گاڑی کے پاس آ کر رکے ۔ان میں سے چند نقاب پوش پولیس اہلکاروں نے فوری فائرنگ کر کے انکل ذیشان کو مار دیا۔
پھر فائرنگ رکی اور ایک پولیس اہلکار نے کسی کو فون ملا کر بات کرنا شروع کردی ۔ اتنے میں پاپا نے انہیں کہا ہمیں نہ مارو ، ہمیں معاف کر دو ، ہم سے پیسے لے لو ، تلاشی لے لو ہمیں مت مارو ۔فون پر بات کرنے والے پولیس اہلکار نے فون بند کرنے کے بعد اپنے ساتھیوں کو اشارہ کیا ۔انہوں نے دوبارہ گاڑی پر گولیاں چلانا شروع کر دیں۔
میرے پاپا خلیل، ماما نبیلہ، بڑی بہن اریبہ موقع پر جاں بحق ہو گئے ۔ میری ٹانگ اور منیبہ کے ہاتھ پر گولی لگی ۔ پاپا نے مرنے سے پہلے منیبہ اور ماما نے مجھے اور ہادیہ کو ایک دم سیٹ کے نیچے اپنے پاؤں میں لٹا لیا اور خود ہمارے اوپر آ گئیں ۔یوں ہماری جان بچ گئی ۔
کچھ دیر فائرنگ کرنے کے بعد پولیس والوں نے مجھے اور میری دو چھوٹی بہنوں منیبہ اور ہادیہ کو گاڑی میں سے باہر نکالا ۔پولیس ڈالے میں ڈالا اور گاڑی پر پھر فائرنگ کی۔ ہم تینوں رو رہے تھے اور سخت خوفزدہ تھے۔
پولیس والے ہمیں ڈالے میں ڈال کر جائے وقوعہ سے چل پڑے اور تین چار کلو میٹر آگے ایک ویرانے میں اتار دیا۔ میں اور منیبہ گولی لگنے کی وجہ سے درد سے کراہتے رہے۔
کچھ دیر بعد ایک انکل نےاپنی گاڑی میں قریبی پٹرول پمپ پر لا کے چھوڑ دیا۔ وہاں پھر وہی پولیس والے دوبارہ آ گئے اور ہمیں ڈالے میں بٹھا کر ہسپتال چھوڑ دیا۔ کچھ دیر بعد وہاں میرے چاچو اور تایا جلیل اور جمیل آ گئے جنہیں میں نے سب بتا دیا۔
عمیر کی عمر لگ بھگ دس برس اور اس کی دو چھوٹی بہنوں منیبہ اور ہادیہ کی عمر سات برس اور تقریباً پانچ برس بتائی جا رہی ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ ابھی ان بچوں کو اور کس کس کے روبرو یہ کہانی کتنی بار سنانا پڑے گی۔ان بچوں سے کون کون کیا کیا سوال کرے گا ؟ یہ بھی کوئی نہیں جانتا کہ اس سانحے کے کس کس ذمہ دار سے کیا قانونی سلوک ہوگا یا نہیں ہوگا۔
ممکن ہے تمام زمہ دار کیفرِ کردار تک پہنچ جائیں یا پھر بری ہو جائیں، ممکن ہے جھوٹ سچ پر غالب آ جائے یا سچ کا بول بالا ہو جائے۔ ممکن ہے ریاستی ادارے خود کو بچانے کے لیے ان بچوں کے سامنے ڈٹے رہیں یا پھر بچوں کو انصاف دلانے کے لیے ڈٹ جائیں ۔فی الحال کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
انکل ذیشان دھشت گرد تھے کہ نہیں۔ ممکن ہے انکل ذیشان کی سینیٹ میں گواہی کے لیے پیش ہونے والی والدہ کو ایک دن صبر آ ہی جائے ۔ نقیب اللہ محسود یا اس جیسے بیسیوں کو انصاف نہ بھی ملا تب بھی ان کے ورثا کو ضرور معلوم ہو گا کہ کیوں نہیں ملا۔
مگر عمیر، منیبہ اور ہادیہ کی زندگی تو ابھی شروع ہو رہی ہے ۔ کوئی نہیں جانتا اس زندگی نے ان تینوں کی قسمت میں کیا کیا ہونا لکھا ہے۔ابھی وہ سکول جائیں گے ، زرا بڑے ہوں گے تو اخبار اور چینل پر نشر ہونے والی خبریں اور تجزیے سمجھنا شروع کریں گے۔
جب انہیں پتہ چلے گا کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سیکورٹی اہلکار کیا کرتے ہیں، جب وہ فلسطینیوں اور مسلح اسرائیلی اہلکاروں کے حاکم و محکوم والے تعلق کی خبر پڑھیں گے اور جب انہیں کلاس ٹیچر یہ بتائے گی کہ پاکستان بنانے والوں نے یہ ملک کیا سوچ کر بنایا تھا ۔
اور جب وہ بھانت بھانت کے سیاستدانوں، دانشوروں ، ریٹائرڈ پولیس اہلکاروں ،جنرلوں اور مولویوں سے قانون ، اخلاق ، انسانیت ، حب الوطنی اور رسول اللہ کی تعلیمات پر مسلسل روشنی پڑتے دیکھیں گے تو عمیر ، منیبہ اور ہادیہ ان مثالوں اور اپنے چشم دید تجربات کو کس طرح جوڑ کر کیا تصویر بنائیں گے ۔ کون جانے ؟ ابھی تو عمیر منیبہ اور ہادیہ کو بہت جینا ہو گا ۔