بچپن میں بزرگ خواتین سے سُنتے آئے تھے کہ شوہراپنی بیوی کا مجازی خدا ہے۔ اگر بیوی کو خدا کے بعد کسی تو سجدہ کرنا جائز ہو تا تو وہ اُسکا شوہر ہوتا۔
نوجوانی میں میرے ذہن میں بارہا یہ سوال اُٹھتا تھا کہ شوہر کے حقوق اور اختیارات بیوی سے زیادہ کیوں ہیں؟ اور جواب دیا جاتا کیونکہ اُس پر معاشی ذمہ داری کا فریضہ ہے۔ میں اکثر یہ سُن کر سوچ میں پڑجاتی تھی کہ کیا بچہ پیدا کرنا، گھر، شوہر اور بچے کی دیکھ بھال کرنا چھوٹی ذمہ داری ہے؟ اوراگر ایسا ہے تو میں بھی شادی کے بعد معاشی ذمہ داری ہی سنبھال لوں گی تاکہ میرے اختیارات اور کام کی اھمیت شوھر سے زیادہ ہو۔
میری اس بات پر سب ہنستے اور کہتے کہ تم بے وقوف ہو۔ عورتوں کا کام گھر داری کرنا اور مردوں کا پیسہ کمانا ہے اور جب میں پوچھتی کہ اس بات کا فیصلہ کس نے کیا ہے کہ کس کا کام کیا ہے؟ توکہا جاتا کہ صدیوں سے ایسا ہی ہورہا ہے۔ مرد جسمانی طور سے عورتوں سے مضبوط ہیں اس لئے گھر سے باہر جاکر سخت محنت کرنا اُن کا کام ہے۔ عورتیں نازک ہیں اس لیے بچے پیدا کرنا، اُن کی تربیت کرنا، کھانا پکانا اور دوسرے گھریلو کام کاج کرنا عورتوں کی ذمہ داری ہے۔ میرا اگلا سوال ہوتا کہ کیا بچے پیدا کرنا ان کی تربیت کرنا سخت محنت کا کام نہیں ہے؟ ہاں اگر جسمانی مضبوطی سے آپ کا مطلب مردوں کے بڑے پٹھوں سے ہے تو اسس مشینی دور میں ان کے بڑے پٹھوں کی ضرورت کس کو ہے؟ اور آخر میں مجھے ڈانٹ کر چُپ کرا دیا جاتا کہ تم بہت الٹی سیدھی باتیں سوچتی ہو۔
جب مجھے یونیورسٹی کی سطح پر مخلوط تعلیمی نظام میں لڑکوں کے ساتھ پڑھنے اورساتھ اُٹھنے بیٹھنے کے مواقعے میسر آئے تو قریب سے لڑکوں کو دیکھ کر یہ بات سمجھ میں آگئی کہ ان میں کوئی سُرخاب کے پر نہیں لگے ہیں۔ بلکہ کبھی کبھی تو اپنے ہم عمر لڑکے اپنے آپ سے کافی کم سمجھدار، اور کم صلاحیتوں کے مالک بھی لگتے تھے۔ جیسا کہ اُن میں سے کسی کو بھی گھریلو کام کاج اور سینا پرونا نہیں آتا تھا۔
میں سوشیالوجی یعنی عمرانیات کی طالبہ تھی جب کلاس میں مختلف social systems کے بارے میں پڑھایا جارہا تھا کہ matriarchy یعنی مدَرسری (جہاں عورت کا رتبہ مرد سے بلند ہو) اور patriarchy یعنی پدر سری نظام (جہاں مرد کا رتبہ عورت سے بلند ہو) کیا ہوتے ہیں اور اس کی تشکیل کیسے ہوئی تو سمجھ میں آنا شروع ہو گیا کہ اس وقت دُنیا بھر میں پدرسری نظام کے تحت مردوں کی بالادستی یعنی male supremacy ہم عورتوں پر کس طرح مسلط کی گئی ہے۔ اور کیسے دنیا کہ سارے مذاہب کی تشکیل کے دوران اس بات کا خاص خیال رکھا گیا ہے کہ وہ مردانہ بالا دستی کو فروغ دیں۔
مردوں کی برتری یعنی male supremacy ایک ایسا نظریہ ہے جس میں عورتوں کی حیثیت مردوں سے کم ہے۔ یعنی عورت کو نا صرف پیدائشی طور سے بے وقوف یا ناقص عقل سمجھا جاتا ہے بلکہ اس کی حیثیت پاؤں کی جوتی کے برابر ہوتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ عورت کی ذات کو مرد کے جنسی فعل و تسکین یا صرف بچہ پیدا کرنے کے لئے محدود سمجھا جاتا ہے۔
اب عمرانیات کی تعلیم تومجھ پر اپنا اثر بھر پور طریقے سے کررہی تھی اور میں ان دونوں ہی نظامون کو رد کرچکی تھی جنہاں مرد اور عورت ایک دوسرے کے برابر نہیں ہیں۔ مگر اردگرد نظر آتے رول ماڈلز، مثال کے طور پر بڑی بہنوں کی شادی شدہ زندگیوں سے غیر شعوری طور پر یہ بھی سیکھ لیا تھا کہ معاشرہ شادی شدہ عورتوں کو دو مختلف اندازسے دیکھتا ہے۔ اچھی عورت جو شوہر اور سُسرال والوں کی اطاعت کرے اور بُری عورت جو اپنی خود مختاری چاہے۔ مجھے اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کم عُمری ہی میں غیر شعوری طور سے اچھی عورت کے غلط تصور نے میرے دل میں کیسے گھر بنا لیا ہے۔
جنوری 2001 میں ایک انڈین فلم “کبھی خوشی کبھی غم” ریلز ہوئی جس کی مقبولیت نے شہرت کی بلندیوں کو چھو لیا۔ فلم کے ایک سین نے مجھ پر بہت گہرے اثرات چھوڑے جس میں امیتابھ بچن کی بیوی جیا بچن روتے ہوئے اُس سے کہتی ہے“ مجھے بچپن سے بتایا گیا تھا کہ میرا پتی پرمیشور یعنی بھگوان کا روپ ہو گا اور اُس کی پرستش کرنا میرا فرض ہوگا۔ مگر تمھارے غلط فیصلوں سے مجھے اندازہ ہوا کہ میرا پتی پرمیشور نہیں ہے۔ اور مجھے اس تصور کے ٹوٹنے سے بہت دُکھ پہنچا ”
میں بھی اُس وقت نئی نئی شادی کے بندھن میں بندھی تھی اور دوستوں اور رشتے داروں سے ایک کامیاب شادی شدہ عورت کے طور سے پہچان چاہتی تھی۔ جس کے لئے شوہر کی اطاعت کرنا اور اور اُسے super soul یا مجازی خدا سمجھنا ضروری تھا۔ مگر کام کچھ بن نہیں پا رہا تھا۔
بہرحال میں اس حقیقت کو جھُٹلا نہیں پائی کہ معاشرتی اقدار شوہر کی اطاعت کو سراہتی ہیں مگر وہ مجھے اپنا دوست محسوس ہوتا ہے۔ میرا شوہر بالکل میری طرح کا انسان ہے۔ جس کے اندر میری ہی طرح کچھ خوبیاں اورکچھ خامیاں ہیں۔ تو پھر میں کیوں اُس کی ہر بات پر امننا صدقنا کہوں؟ میں کافی کشمکش کے بعد اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ دنیا چاہے کتنے بھی طعنے کسے یا پتھر اُچھالے میں اپنے شوہر سے اُس کے انسان ہونے کا بنیادی حق نہیں چھین سکتی۔
اب مسئلہ یہ ہے اگر میں شوہر کی اطاعت نہ کروں تو کس کی کروں؟ دل نے پوچھا کہ کیا دوسروں کی اطاعت کرنا ضروری ہے؟ تم خود اپنی اطاعت کیوں نہیں کرسکتیں؟ ذہین، سمجھدار، ذمہ دار، تعلیم یافتہ، ملازمت یافتہ ہو۔ اور تو اور گھریلو سلیقہ مندی میں طاق۔ دینا کا کون سا ایسا کام ہے کہ جو کوئی مرد کرسکتا ہے اور تم نہیں؟ مگر پھر اندر سے آواز آئی اور شوہر وہ کیسا محسوس کرے گا کہ میں اُس کی اطاعت گزار نہیں بننا چاہتی؟ کیا اُس کو میری محبت اور اپنی مردانگی میں کمی محسوس نہیں ہوگی کہ اُس کی بیوی پر اُس کا کنڑول نہیں ہے۔ دنیا کیا کہے گی؟ میں کتنی خود سر اور بد تمیز عورت ہوں۔
دل نے بس اتنا کہا کہ شوہر کی ہمددر اور ہمسفر بنوگی تو اُسے تمھاری بندگی سے زیادہ لطف تمھاری دوستی میں آنے لگے گا۔ اور دنیا کا کیا ہے وہ تو کچھ نہ کچھ کہے گی ہی۔ چاہو تو آزما کر دیکھ لو۔ اور میں نے آزما لیا۔
شوہر کو اپنا دوست بنانا یقیناً کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یوں سمجھو کہ لوہے کہ چنے چبانے پڑے۔ 20 سال برابری سے کندھے سے کندھا ملا کر چلنا پڑا۔ معاشی ذمہ داری میں برابری کا حصہ ادا کیا، شوہر کے کمزور لمحوں (بیماری اور دُکھ) میں اُس کو سنبھالنا پڑا۔ اور اس دوران شوہر نے اپنے مجازی خدا کے اختیارات پر سے دست بردار ہوتے ہوئے کئی یو ٹرن بھی لئے۔ مگر یقین مانیں اس سب کے بعد ہمارے رشتے میں جو قربت پیدا ہوئی اُس کی چمک آج دور دور تک روشنی پھیلا رہی ہے۔
آج میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ میری طرح ہر پڑھی لکھی، ملازمت کرنے والی باشعور عورت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ میں آ رہی ہے کہ اُس کا شوہر مجازی خدا یا پتی پرمیشور ہرگز نہیں ہے مگر وہ اس حقیقت کو مانے تو کیسے مانے۔ کیونکہ فی الوقت تو خود مختار عورت پر ایک بُری عورت کا لیبل لگا ہے۔
کیا آج کی عورت میں اتنی ہمت ہے کہ وہ اپنے آپ پر بُری عورت کا لیبل لگنے دے؟ ۔ اپنی بیٹی کے لئے رول ماڈل بنے اور سکھائے کہ شوہر کی اطاعت کرنے کے بجائے اُس کو اپنا دوست بنانا۔ اُس سے خوف کھانے یا دل ہی دل میں غصہ کرنے کے بجائے محبت اور ہمدرددی سے پیش آنا کیونکہ ہمدردی یا compassion ہی وہ راستہ جوکہ مردوں کوآقا اور عورتوں کو غلام کے رتبے سے نجات دلا سکتی ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر ہم مرد پرست عورتیں باواز بلند اپنی خود مختاری کا اعلان کریں اور شوہر کو اپنا دوست اپنا ساتھی مانیں نہ کہ مجازی خدا تو کیا ہم اپنے آپ کو وہی عزت اور احترام دے پائیں گے جو ہم ایک فرمانبردار اور اطاعت گزار بیوی کے روپ میں اپنے آپ کو دے پاتے ہیں؟ شاید نہیں۔
تو پھر تو صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہرعورت غیر مساوی حقوق اور اختیارات کو اُس وقت تک برداشت کرے جب تک کے اُس میں بھی خود سر اور بُری عورت کے لیبل کو برداشت کرنے کی ہمت نہ آ جائے۔
فیض صاحب نے کیا خوب کہا ہے کہ
ھم ایسے سادہ دلوں کی نیاز مندی سے
بتوں نے کی ہیں جہاں میں خدائیاں کیا کیا۔