ہم جب کسی بڑے سائنس دان، سیاست دان، مفکر، اداکار، ادیب، دانشور کو دیکھتے ہیں تو رشک کرتے ہیں اور خواہش و دعا کرتے ہیں کاش ہماری اولاد اس مقام پہ کھڑی ہو۔ اور ہمارا نا م روشن ہو جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک خوش حال اور خوشگوار زندگی بھی گزارے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو ہم نہیں کر سکے وہ، وہ بھی کرے۔ جو ہم نہیں پا سکے اسے وہ سب مل جائے۔ وہ ایک اچھی سماجی اور ازدواجی زندگی بھی گزارے۔ وہ جلد میچور ہو جائے۔
تو کیا ہم اپنی خواہشات اور دعا سے اپنی اولاد کے پہلے مجرم خود نہیں ہیں؟
بچے کی سب سے پہلی تجربہ گاہ اس کے کھلونے ہو تے ہیں۔ اور ہر بچے کی ان کھلونو ں سے دور ہو نے کی الگ عمر ہو تی ہے۔ جب وہ آتی ہے تو فطری طور پہ وہ ان سے دور ہو جاتا ہے۔ لہذا جبراً ان کو کھلونوں سے دور کرنا، اور اس لئے دور کرنا کہ وہ پڑھائی پہ تو جہ دے۔ اس کو کبھی بھی پڑھائی کی طرف مائل نہیں کرے گا۔ اس کے لئے ماحول بنانا ہو گا۔
اپنے بچوں کے سامنے خود کتاب پڑھئے اس کا آسان حل یہی ہے۔ کیو نکہ بچہ وہی کرتا ہے جو آپ کو کرتا دیکھ رہا ہو تا ہے۔
زندگی کے کچھ پیکج ہیں۔ جو فطرت کی طرف سے متعین ہیں۔ زندگی کو ہم ان سے باہر نہیں نکال سکتے۔ یہ فطرت میں مداخلت ہے۔ جس کے نتائج مزید گنجلک ہوتے ہیں۔ جب ان اہم اشخاص کو آئیڈیل بنا کر آپ بچے پہ اپنی خواہش کا بوجھ ڈالتے ہیں۔ اس کے والدین ہو نے کا نا جائز فائدہ اٹھاتے ہیں تو ان اشخاص کی حالات زندگی کا مطالعہ اس نقطہ نظر سے ضرور کیجئے کہ ان لوگوں نے یہ سب بننے میں کیا کچھ کھویا ہے۔ اوراس بات کے لئے خود کو تیار کر لیجیے کہ آپ کا بچہ بڑا اور اہم انسان بن سکتا ہے۔ آپ کا اور اپنا نام بھی روشن کر سکتا ہے۔ مگر اس کو یہ سب بننے کے لئے ایک درد سے گزرنا ہے۔ کچھ کھو دینے کے فطری عمل سے گزرنا ہے۔ اور اس کے لئے آپ کو اپنے بچے کو موردالزام بھی نہیں ٹھہرانا۔ کیو نکہ یہ سب اس ذہانت کے پیکج کا حصہ ہے۔ اس بلندی کی قیمت ہے۔ کامیابی قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔
کبھی شاخ پہ سجا گلاب دیکھئے تو اس کی لمبی شاخ پہ کانٹے اور پتے بھی ہو تے ہیں۔ لیکن ہماری نظر گلاب پہ ہی ٹھہرتی ہے۔ یہ زندگی بھی ایسا ہی ایک گلاب ہے۔ کبھی ڈیلوری روم میں نو مولود بچے کو دیکھئے تواس کے پیچھے ماں کی نو ماہ کی اور اس لمحہ موجود کی تکلیف ہو تی ہے۔ تو ایک زندگی آغوش میں آتی ہے۔ جب ہماری ہر چیز پہ نظر ہے تو ہم فطرت کے مقابل کیو ں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اپنی مرضی کا کو ئی پیکج تیار کرنے کی کو شش کرتے ہیں جس میں ہماری اولاد کے لئے کوئی درد نا ہو۔ یہ ہماری محبت تو ہو سکتی ہے۔ مگر اس محبت میں خود غرضی شامل ہے۔ کیو نکہ ہم اپنے بچوں سے ان کا تجربہ چھین لیتے ہیں۔ اور اپنے تجربے کا بوجھ اس پہ ڈال دیتے ہیں۔ اوراس کے نتائج بھی اپنے سے مختلف چاہتے ہیں۔
یہ سب کچھ آپ کے بچے کو آپ سے ذہنی و قلبی طور پہ دور کرتا چلا جاتا ہے۔ اور جب احساس ہو تا ہے۔ وقت کی تیز تلوار چل چکی ہو تی ہے۔ جس کا الزام دوسروں پہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حسن اتفاق سے اگر ہم والدین بن گئے ہیں تو فرعون تو نا بنیں۔ پرندوں سے فطرت کا قانو ن سیکھ لیں۔ زندگی کے دو ہی پیکج ہیں ایک یہ کہ زندگی مزے میں گزرے گی تو آپ کسی بہت خاص مقام پہ نہیں ہو نگے۔ دوسرے یہ کہ اگر کو ئی بہت خاص مقام ہے تو زندگی سے کچھ نا کچھ نکل جائے گا۔
ذہین بچے ذرا سست ہوتے ہیں۔ تو اس کو بھی قبول کرنا پڑے گا۔ ذہین بچے حساس ہوتے ہیں اس کو بھی سمجھنا پڑے گا۔ جس ذہانت اور مقام پہ ہم اپنی اولاد کو دیکھنا چاہتے ہیں وہ سب کی سب وہ منزلیں ہیں۔ جہا ں اندر سے تنہا اور خالی بچے سفر کرتے ہیں۔ اس کے لئے ہمیں تیار رہنا ہو گا۔ کیونکہ کامیابی قربانی کا تقاضا کرتی ہے۔