سروز کا شمار اگرچہ لوک موسیقی کے قدیم ترین سازوں میں ہوتا ہے لیکن اس کی سحر طاری کرنے والی آواز کی طاقت میں کوئی کمی نہیں آئی ۔
مخصوص ڈیزائن کے ساتھ لکڑی، چند تاروں اور ایک چھوٹی سی پوست پر مشتمل اس ساز کے بغیر بلوچستان کے قبائلی معاشرے کی لوک موسیقی نامکمل ہے۔
اگر یہ کسی ماہر کے ہاتھ میں ہوتو کسی اور آلۂ موسیقی کی تشنگی محسوس نہیں ہوتی بلکہ اکیلا ہی کئی دھنیں بجانے کے لیے کافی ہوتا ہے۔
تاہم اس کے ساتھ اگر طنبورہ یا کوئی اور ساز بجایا جائے تو یہ لطف کو دوبالا کرتا ہے۔
سروز کی طرح چنگ کا شمار بھی بلوچستان کے لوک موسیقی کے قدیم ترین آلات میں ہوتا ہے۔ مکمل طور پر لوہے پر مشتمل یہ چھوٹا سا ساز جیب میں بھی آتا ہے۔
عنایت اللہ لہڑی بلوچستان میں لوک موسیقی کے واحد ایم فل اسکالر ہیں۔
’موجودہ دور کی موسیقی اپنا تاثر نہیں چھوڑتی’
وہ کہتے ہیں کہ سروز اور چنگ روایتی ساز ہیں جو ہزاروں سال سے ہماری تہذیب کے ساتھ سفر کرتے چلے آرہے ہیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ آج کل یہ معدوم ہوتے جارہے ہیں جس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ توجہ نہ ہونا اور موسیقی کے نئے نئے آلات کی آمد ہے۔
وہ ان کے معدومی کو روایات مسخ کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر قوم یا نسل کی تاریخ کو مسخ کرنا ہے تو ان کو ان کے موسیقی کے آلات سے بیگانہ کرو۔ اگر ان کے موسیقار اور ان کے جتنے بھی موسیقی کے آلات ہیں وہ ختم ہوگئے تو ان کا کیا ہوگا۔
عنایت لہڑی کہتے ہیں کہ اگر لوک گیتوں میں سروز، چنگ یا طنبورہ نہیں ہو گا تو اسے لوک موسیقی سمجھا ہی نہیں جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ سروز بنانے کے طریقے مختلف ہیں اور مختلف لکڑیوں سے بنتا ہے۔ اس کے ساتھ کچھ تار ہوتے ہیں جبکہ ایک چھوٹی سا پوست بھی۔
انہوں نے اس کے حوالے سے مولانا رومی کے ایک شعر کا بھی حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں
خشک مغز، خشک تار، خشک پوست
ازکجا می آمدیہ آوازِ دوست۔
یعنی کہ ساری چیزیں یعنی لکڑی بھی خشک، تار بھی خشک اور یہ پوست بھی خشک ہے لیکن یہ پیاری سی آواز کس طرح اس سے آتی ہے۔
عنایت لہڑی نے بتایا کہ یہ ایک مکمل سبتک کا ساز ہے اور اسے بجانے کے لیے کمان نما ایک اور چیز بھی ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اسے ہم لوگ گز بولتے ہیں اس کے جس حصے کو سروز پر پھیرا جاتا ہے وہ گھوڑے کی دم کے بال سے بنا ہوتا ہے‘۔
جہاں اس آلہ موسیقی سے نکلنے والی دھنیں سحر طاری کرتی ہیں وہاں اس کی مختتلف شکلیں بھی ہوتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر اسے کھڑا کرکے سامنے سے دیکھا جائے تو یہ ایک چٹان پر بیٹھے شاہین کی مانند ہوتا ہے۔اگر زمین پر رکھ کر سامنے سے دیکھا جائے تو یہ کشتی لگتا ہے اور اگر اسے الٹا کر کے دیکھا جائے توکچھوے کی طرح نظر آتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ چنگ بھی ہماری تہذیب کا حصہ ہے۔ یہ ایک قدیم ساز ہے جو کہ لوہے سے بنتا ہے۔
عنایت لہڑی کا کہنا ہے کہ ان کے بنانے والے ہمارے سرمست قبیلے کے لوگ ہیں۔ وہ ابھی بھی اسے بناتے ہیں لیکن اب اس کے بنانے والے بہت کم ہو گئے ہیں۔
انھوں نے اسے تنہائی کا بہترین ساتھی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کو اٹھانے کے لیے زحمت نہیں کرنا پڑتا بلکہ یہ جیب میں آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسے بجانے والے چرواہے یا کسان ہوتے ہیں جو اپنے دیہات میں کاشت کاری یا سفر کے دوران اسے بجاتے ہیں۔
عنایت لہڑی نے نئی نسل کو ان سازوں سے متعارف اور آشنا کروانے کے لیے ایک ادارہ بھی کھولا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ جب وہ نوجوانوں کو یہ ساز بجاتے اور اسے سیکھتے دیکھتے ہیں تو انھیں سکون ملتا ہے۔ ’نوجوان اسے اپنے سینے سے لگا رہے ہیں تو ظاہر ہے یہ میرے دل کو ٹھنڈک پہنچانے والی چیز ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے نوجوانوں کو اکٹھا کیا ہے جس کا مقصد ان کو بھی بچانا ہے اور اپنے موسیقی کے آلات کو بھی بچانا ہے تاکہ یہ ہمیشہ کے لیے زندہ رہیں۔