ایک سال قبل پشتون نوجوانوں پر مشتمل ایک قافلہ لانگ مارچ کرتے ہوئے اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے سامنے کراچی میں پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل پر احتجاج کرنے جمع ہوا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اگلے 12 ماہ کے دوران یہ تحریک کیا رنگ لائے گی۔
اسلام آباد پریس کلب پر دھرنے کے ٹھیک ایک سال بعد، پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے نام سے معروف ہونے والی تحریک کو بلوچستان کے علاقے لورا لائی میں 35 سالہ ارمان لونی کی شکل میں اپنا پہلا سیاسی شہید ملا جو دو فروری کو مبینہ پولیس تشدد کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔
ان کی ہلاکت کے بعد صوبہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں ہڑتال کی گئی اور پانچ فروری کو ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال دی گئی جس میں کئی پشتون نوجوانوں کو زیر حراست لیا گیا۔
اس موقع پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ گذشتہ ایک سال میں حالات اس نہج پر کیسے پہنچے کہ نہ صرف تحریک کو ان کا پہلا ’شہید‘ ملا، بلکہ اس کے علاوہ ان کے ہزاروں کارکنوں کو ملک کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا، ان کے رہنماؤں کی نقل و حرکت پر پابندی لگائی گئی۔
نہ ان کے جلسے میڈیا پر دکھائے گئے نہ ان کے رہنماؤں کو ٹاک شوز پر اپنی رائے دینے کی جگہ میسر ہوئی۔ اخباروں میں ان کی خبروں کا بلیک آؤٹ کیا گیا اور سوشل میڈیا پر اس تحریک کے خلاف انتہائی پرزور مہم چلتی رہی جس میں انھیں ملک دشمن اور غدار قرار دیا گیا۔
لیکن شاید اس سے بھی بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلسل عدم تشدد کا پرچار کرنے اور پر امن احتجاج کرنے والی اس تحریک میں ایسی کیا بات ہے جس نے پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور کو مجبور کیا کہ وہ متعدد مواقعوں پر، چاہے وہ آن دا ریکارڈ پریس کانفرنس اور میڈیا انٹرویوز ہوں یا آف دا ریکارڈ گفتگو، پی ٹی ایم کے بارے میں کسی نہ کسی نوعیت کا بیان دیتے رہے اور کبھی انھوں نے تحریک کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کر کے انھیں تنبیہ کی اور کبھی ان کے موقف کو جائز قرار دیا۔
ان جوابات کے حصول کے لیے اس تحریک کے جنم لینے کے عوامل کا جائزہ لینا ضروری ہوگا۔
پاکستان کے سیاسی افق پر جنوری 2018 میں ابھرنے والی یہ تحریک جنوبی وزیرستان سے 2014 میں محسود تحفظ مومنٹ کے نام سے شروع ہوئی تھی اور ان کے مرکزی مطالبات وزیرستان کے علاقے میں جبری گمشدگیوں، بارودی سرنگوں کی موجودگی اور وہاں متعین فوجیوں کے رویے سمیت دیگر شکایات کے خلاف احتجاج کرنا تھا۔
جنوری 2018 میں دھرنے کے بعد پشتون تحفظ موومنٹ میں بدل جانے والی اس تحریک نے گذشتہ بارہ ماہ کے دوران ملک کے طول و عرض میں اپنے مطالبات کے حصول کے لیے متعدد جلسے منعقد کیے جہاں پی ٹی ایم کے نوجوان سربراہ، 26 سالہ منظور پشتین اور ان کے دیگر ساتھیوں نے بالخصوص پاکستانی فوج پر کڑی تنقید کی اور اپنی شکایات کے سد باب کے لیے جنوبی افریقہ کی طرز پر 'حقائق اور مفاہمتی کمیشن' کے قیام کا مطالبہ کیا۔
لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں فوج کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں تقریباً نصف عرصہ حکومت فوجی آمروں کے پاس رہی ہے اور قومی بیانیے میں فوج پر براہ راست تنقید کرنے کے بجائے اکثر اوقات اسٹیبلیشمنٹ، خلائی مخلوق اور فرشتے جیسے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔
لیکن پی ٹی ایم نے اس روایت کو تبدیل کرتے ہوئے جہاں اپنے جلسوں میں مسلسل ریاستی حکام سے اپنے مطالبات کے حل کے لیے مذاکرات کرنے کی اپیل کی ہے، وہیں انھوں نے جس کھلے انداز اور سخت لہجے میں فوج کی پالیسیوں اور جرنیلوں پر تنقید کی ہے وہ اس سے پہلے عوامی طور پر کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔
فوج کی جانب سے ’آئیں بات کریں‘ کی پیشکش تو کی جاتی ہے لیکن یہ بات چیت تاحال اس پیشکش سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔
ان حالات و واقعات کے تناظر میں پی ٹی ایم کے ایک سالہ سفر کا قریب سے مشاہدہ کرنے والوں کا خیال ہے کہ فوج کا ان کی جانب رویہ مصالحتی نہیں لگتا اور خدشہ ہے کہ آنے والا وقت تحریک کے لیے کانٹوں کی سیج بن سکتا ہے۔
اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے محقق رفیع اللہ کاکڑ نے کہا کہ فوجی حکام عندیہ دیتے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں لیکن ان کے عملی رویے سے ایسا نہیں لگتا ہے کہ وہ اس کے لیے سنجیدہ ہیں۔
'پی ٹی ایم کے جو مطالبات ہیں وہ فوج کی طاقت کو براہ راست چیلنج کرتے ہیں۔ حقائق اور مفاہمتی کمیشن درحقیقت گذشتہ 17 سالوں سے قبائلی علاقوں میں ہونے والے واقعات اور 'وار آن ٹیرر' کے ذمہ داران کا تعین کرنے کا ذریعہ ہے اور ہماری فوج نہ اس طرح کے احتساب کی عادی ہے اور نہ ہی وہ سمجھتی ہے کہ کوئی آکر ان سے حساب مانگے۔ وہ کبھی یہ مطالبہ ماننے پر راضی نہیں ہوں گے، وہ تو ہمیشہ اپنی شرائط پر مذاکرات کریں گے۔'
لاہور میں مقیم محقق رضا وزیر سے جب بی بی سی نے اسی بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ پاکستانی فوجی حکام چیزوں کو انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور اسی وجہ سے فریقین میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے۔
'ہم ماضی میں بارہا دیکھ چکے ہیں کہ کس طرح فوج ملک میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں کو بیرون ملک کے زاویے سے دیکھتی ہے۔ بنگلہ دیش کی مثال موجود ہے کہ واضح ترین اکثریت حاصل کرنے والے شخص کو غیرملکی ایجنٹ قرار دے دیا۔ آپس میں اعتماد کی کمی کی اصل وجہ ہی یہی ہے کہ فوجی حکام پی ٹی ایم جیسی تحریکوں کو تھکا دینے کی اور وقت گزاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں اور شاید اسی لیے پی ٹی ایم کو لگتا ہے کہ ان سے کیے گئے وعدے پورے نہیں ہوں گے۔'
پی ٹی ایم کی جانب سے کیے گئے مطالبات اور الزامات کے بارے میں بی بی سی نے جب فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ سے ردعمل لینے کی کوشش کی تو یہ کہہ کر بات کرنے سے معذرت کر لی گئی کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے اس معاملے پر میڈیا پر کھل کر واضح موقف دیا جا چکا ہے۔
تاہم گذشتہ ایک سال میں فوج کی جانب سے پی ٹی ایم کے بارے میں تبصروں کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ابہام اور تضاد نظر آتا ہے۔
مارچ 2018 میں دیے گئے ایک بیان میں فوجی ترجمان نے کہاتھا کہ پی ٹی ایم کے مطالبات پورے ہونے کے باوجود انھیں اور جگہوں اور ملک کے باہر سے بھی حمایت حاصل ہونا شروع ہو گئی اور افغانستان سے بھی ان کی حمایت کی گئی۔
اپریل 2018 میں برّی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے پی ٹی ایم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا میں امن آیا تو لوگوں نے ایک اور تحریک شروع کر دی ہے۔
تاہم اسی ماہ پشاور کے اُس وقت کے کورکمانڈر لیفٹننٹ جنرل نذیر احمد بٹ نے کہا کہ 'منظور پشتین ہمارا اپنا بچہ ہے' اور تحریک کے مطالبات کو جائز قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'اگر وہ غصے میں بھی ہے تو ہم انھیں سنیں گے۔'
جون 2018 میں فوجی ترجمان آصف غفور کے طرف سے ایک اہم بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے پہلی بار پی ٹی ایم کے بارے میں باضابطہ طور پر بات کی اور الزام لگایا کہ بہت سے شواہد ہیں کہ کیسے دشمن قوتیں پی ٹی ایم کو استعمال کر رہی ہیں، اور وہ استعمال ہو رہے ہیں۔
اسی طرح سال کے آخر میں دسمبر 2018 میں آصف غفور نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تنبیہ کی کہ 'پی ٹی ایم جس راستے پر گامزن ہے وہاں حد عبور کرنے کی صورت میں فوج اپنے اختیارات استعمال کرسکتی ہے۔'
لیکن اس پریس کانفرنس کے ایک ماہ بعد ہی جنوری 2019 میں نجی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں فوجی ترجمان نے نرمی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ 'جو لوگ پی ٹی ایم کے جھنڈے تلے اپنے جائز مطالبات کی بات کر رہے ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے اور وہ تو عدم تشدد کے فلسفے پر مبنی تحریک ہے۔'
فوج کی جانب سے اس متضاد بیانیے کے حوالے سے سابق بریگیڈئیر اور مشرف دور میں قبائلی علاقوں کے ایڈیشنل سیکریٹری محمود شاہ سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ فوج منظم طریقے سے کام کرتی ہے اور وہ موقع شناسی سے کام لیتے ہوئے پی ٹی ایم کے بارے میں بیانات دے رہی ہے۔
گذشتہ سال اپریل میں کئی اور سابق فوجی افسران کے ہمراہ فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے پی ٹی ایم کے حوالے سے ملاقات کرنے والے بریگیڈئیر محمود شاہ مزید کہتے ہیں: 'پی ٹی ایم ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہے حالانکہ انھیں ملک میں انتشار پھیلانے کی ذمہ داری ملی ہے اور وہ لوگوں سے زبردستی ہمدردیاں بٹورنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کو زیادہ اہمیت دینے کی قطعی کوئی ضرورت نہیں ہے اور بہت ممکن ہے کہ عنقریب ریاست ان کے خلاف عملی اقدام کا فیصلہ کرے۔'
دوسری جانب جب پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین سے فوج کے متضاد بیانات اور فریقین میں اعتماد کے فقدان کے حوالے سے سوال کیا گیا تو انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اصولاً جس سے گلہ ہو وہ آتا ہے ملنے کے لیے اور وہ جو صاحب اقتدار ہوں یہ ان کا کام ہے کہ مظلوم کے پاس جائیں۔
'ہم نے تو بارہا کوشش کی ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں لیکن ہمیں تو میڈیا پر بات کرنے کی اجازت نہیں ملتی، اعتماد کا فقدان کیسے ختم ہو گا اگر ہمارا موقف سامنے نہ پیش کیا جائے۔'
منظور پشتین کے مطابق فوج ان کی تحریک کو مختلف اشارے دے رہی ہے اور اس سے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس پی ٹی ایم کے لیے کوئی واضح پالیسی نہیں ہے۔
انھوں نے کہا: 'ان سے سوال کیا جانا چاہیے کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں؟ یہ کیسی آزادی ہے؟ یہ کیسا اعتماد ہے؟ ہماری آواز کو کیوں روکا جا رہا ہے؟'
فوجی حکام اور پی ٹی ایم کے درمیان اس بے اعتمادی اور بے یقینی کی فضا میں اگلے چند ماہ کے بارے میں سوال پر بریگیڈیئر محمود شاہ نے کہا کہ لوگوں کو پی ٹی ایم کی حقیقت پتہ چل گئی ہے اور وہ ملک کے لیے کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں ہیں۔
'ان کے مطالبات حل بھی ہو جائیں تو بھی یہ اپنی فرمائشیں بڑھاتے رہیں گے۔ حکومت صرف وقت گزاری کر رہی ہے۔ اگر وہ حد عبور کر لیں تو ان کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو حال ہی میں (مذہبی جماعت) تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ ہوا تھا۔'
البتہ جب تحریک کے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں جب منظور پشتین سے سوال کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ یہ ریاست پر منحصر ہے کہ وہ کیا قدم اٹھاتی ہے کیونکہ ان کی تحریک اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنے والی۔
'ہم نے تو سب کھو دیا ہے اور اب مزید کچھ کھونے کے لیے باقی نہیں ہے۔ ہم نے ہی اب تک ساری مشکلات سہی ہیں لیکن یہ ہمارا عہد ہے کہ ہم تمام تر مظالم کے باوجود صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور اپنے مطالبات کی خاطر پر امن رہتے ہوئے عدم تشدد کے فلسفے پر چلیں گے۔