مائی نیم از انور اینڈ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ !

آمنہ مفتی

پلوامہ میں بھارتی ریزرو فورس کے کانوائے پہ خودکش حملہ ہوا اور کم وبیش پچاس فوجی مارے گئے۔ ہمیں فوجیوں کے مرنے پہ ہمیشہ بہت دکھ ہوتا ہے ۔ چاہے سرحد کے ادھر مریں یا ادھر۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک فوجی تیار کرنے میں ، ہر ملک و قوم کے غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی شامل ہوتی ہے اور وہ یہ فوجی اس لئے تیار کرتے ہیں کہ جیت کر سینے پہ تمغہ سجا کر گھر آئیں ۔ اس طرح ایک نادیدہ دشمن کی بھینٹ نہ چڑھیں ، دشمن بھی وہ جو خود کو اس جرم کی سزا پہلے ہی دے چکا ہوتا ہے ۔

کشمیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے میں اتنی جذباتی ہو جاتی ہوں کہ زمینی حقائق تک سے نظریں چرا جاتی ہوں۔ میں تو خیر برصغیر کے ان کروڑوں باشندوں میں سے ہوں جو سرحد کے ادھر اور ادھر پتا نہیں کس کی چھیڑی ہوئی جنگیں لڑنے اور ان جنگوں میں ہر لمحے بے موت مرنے کو تیار رہتے ہیں ۔لیکن کشمیر کا معاملہ ایسا ہے کہ بڑے بڑے جغادری بھی دیوانے سے ہو جاتے ہیں ۔

پلوامہ کا یہ حملہ ایسا شدید تھا کہ دونوں ملک ہل کر رہ گئے ۔ جاوید اختر اور شبانہ اعظمی کا پاکستان کا دورہ ملتوی ہوا ۔ سعودی شہزادے کا دورہ سر پہ کھڑا ہے ۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کی میز بچھ چکی ہے اور ہندوستان میں انتخابات کا موسم سر پہ ہے۔

ایسے میں عین ویلنٹائین ڈے کو یہ حملہ کچھ اور ہی کہانی سناتا ہے ۔ جیشِ محمد نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور ہندوستان سے انگلیاں اٹھ رہی ہیں کہ اس حملے میں پاکستان ملوث ہے ۔ اس بیان پہ جوابی بیان کچھ یوں بنتا ہے کہ ، نہیں بھلا پاکستان کو کشمیر سے کیا ؟ اس حملے میں یو گنڈا ملوث ہے کیونکہ وہ کشمیر میں گینڈوں کا ڈیری فارم کھولنا چاہتا ہے ۔

پلوامہ

Getty Images

سیاستدانوں کی حس مزاح کمزور ہوتی ہے اور یوں بھی یہ موقع بھونڈے مذاقوں کا نہیں ۔ مصیبت یہ ہے کہ یہ دونوں ملک ایٹمی قوتیں ہیں ۔ دونوں کے پاس بہترین فوج موجود ہے اگر یقین نہ ہو تو کبھی واہگہ بارڈر جا کے پرچم اتارنے کی تقریب اپنی آنکھوں سے ملاحظہ فرما لیں ۔ بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ خطے میں امن و امان کی صورتحال اور توازنِ طاقت برقرار رکھنے کے لئے ، ٹانگ کا کتنے ڈگری تک اٹھنا ، مونچھوں کو کس حد تک تاؤ دینا ، آنکھوں کو کس حدتک حلقوں سے باہر نکالنا ضروری ہے ۔

اگر کوئی خوش فہمی باقی ہو تو دونوں طرف کے عوام کے نعرے سن لیجئے ۔ واپسی پہ طبیعت پھول سی ہو گی اور امن ، بھائی چارے اور انسانیت وغیرہ کے بارے میں پالے گئے پھسپھسے اور فاسد خیالات خاصی حد تک دور ہو چکے ہوں گے ۔

یونیورسٹی کے زمانے میں ہمارے ایک استاد نے دورانِ لیکچر ہمیں بتایا کہ قیامِ پاکستان کے وقت دیگر مسائل کے ساتھ ایک بڑا نظریاتی مسئلہ یہ بھی تھا کہ ہم ہندوستان سے الگ اپنی شناخت پیدا کریں ۔ اس کی مثال وہ یوں دیتے تھے کہ ہمارا گول یہ تھا کہ اگر انگلستان میں ہیرلڈز سٹور پہ محمد انور ، قومیت ہندوستانی اور محمد انور ، قومیت پاکستانی ساتھ ساتھ کھڑے ہوں تو دور ہی سے الگ شناخت کر لئے جائیں کہ کون سا انور کس ملک کا ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے وہ بتاتے تھے کہ امریکہ کو دیکھئے ، ہر رنگ و نسل کا فرد ہے مگر وہ ایک کٹھالی میں گل کے ایک قوم بن گئے ہیں ، دنیا بھر میں بجلی کے بٹن جہاں آف ہوتے ہیں امریکہ میں وہیں آن ہوتے ہیں ۔ باورچی خانے میں لگی ٹونٹیاں ایک خاص نمونے کی ہوتی ہیں اور لیٹر باکس ، جسے ہم لیٹر باکس ہی کہتے ہیں اور ہمارا دشمن ملک پتر گھسیڑو کہتا ہے وہ بھی باقی دنیا سے فرق اپنے ہی رنگ کے ہوتے ہیں ۔ یہ ہوتی ہے قومی شناخت ۔

مجھ جیسے کوڑھ مغزوں کا یہ ہے کہ اس قسم کی دقیع باتیں کبھی سمجھ نہیں آتیں ۔ سوچتی رہی ، آج تک سوچتی ہوں کہ اگر ہیرلڈز پہ دو محمد انور کھڑے ہوں تو کیا ان کی شناخت بطور ہندوستانی محمد انور اور پاکستانی محمد انور ممکن ہے ؟ کم عقلی کے باعث ایک ہی جواب ملتا ہے ۔ نہیں ، دونوں انوروں کو دہشت گرد ہی کہا جائے گاخواہ وہ کتنا ہی چلا لیں کہ مائی نیم از انور اینڈ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ