پاکستان میں منشیات کے خلاف کئی مہمات چلائی جا چکی ہیں اور حال ہی میں اعلان ہوا کہ صوبہ پنجاب کے سکولوں میں ڈرگ ٹیسٹ بھی کیے جائیں گے۔
لیکن ذہنی امراض کے مریضوں لیے تجویز کردہ نُسخے کے ساتھ ملنے والی ادویات کا یہ حال ہے کہ وہ ’کریانے کی دکان پر ٹافیوں کی طرح فروخت ہو رہی ہیں۔‘
ذہنی امراض پر کام کرنے والے سماجی کارکن عدیل چوہدری کا کہنا ہے کہ ان ادویات کی کم قیمت اور عام دستیابی کے باعث لوگ ان کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ایک لاکھ افراد کے لیے صرف 0.19 ماہر نفسیات موجود ہیں اور یہ خطے میں بدترین تناسب ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ کسی نہ کسی ذہنی مسئلے کا شکار ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستانی معاشرے میں ذہنی امراض سے متعلق بات کرنا مایوب سمجھا جاتا ہے، اسی لیے کئی لوگ اپنا علاج خود کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تجویز کردہ ادویات کے غلط استعمال کی شرح میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
عدیل چوہدری نے 18 ماہ قبل ’ٹاک ٹو می پاکستان‘ نامی ذہنی مسائل سے دوچار افراد کے لیے ہیلپ لائن متعارف کروائی جس کو اب تک ایک لاکھ پچاس ہزار سے زائد لوگوں کی کال موصول ہوچکی ہیں۔
ان کے مطابق اس سروس کو استعمال کرنے والوں میں سے تقریباً 68 فیصد لوگوں کو ڈپریشن یعنی ذہنی دباؤ کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ اس کے باعث عمومی طور پر الپرازولیم (Alprazolam) اور برومیزیپیم (Bromazepam) نامی کیمیکلز پر مشتمل ادویات کا غلط استعمال عروج پر ہے۔ یہ ادویات مارکیٹ میں زینکس (Xanax) اور لیگزوٹینل (Lexotanil)سمیت دیگر ناموں سے فروخت کی جاتی ہیں۔
کیا بینزوڈائزپین (Benzodiazepine) میں نشہ آور عنصر پایا جاتا ہے؟
لاہور کے سروسز ہسپتال کے ماہر نفسیات و منشیات ندیم اختر کے مطابق ’ڈیپریشن، بے چینی اور گھبراہٹ کے شکار مریضوں کو زینکس یا لیگزوٹینل تجویز کی جاتی ہے۔ ان ادویات کا شمار بینزوڈائزپین کی ساخت میں ہوتا ہے۔ عمومی طور پر یہ ادویات اُن لوگوں کو بھی دی جاتی ہیں جن کو نیند نہ آنے کی شکایات ہوں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان ادویات میں نشہ آور عنصر پائے جاتے ہیں اور اس لیے زینکس یا لیگزوٹینل جیسی ادویات کو چار ہفتوں سے زیادہ کے لیے تجویز کرنا نہایت خطرناک ہوسکتا ہے۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ماہر نفسیات احسان چشتی کا کہنا تھا کہ ’مریض کو بینزوڈائزپین کی لت لگنا بے حد آسان ہے۔ اسی لیے اِن ادویات کو بہت کم مقدار اور محدود وقت کے لیے تجویز کیا جاتا ہے تاکہ لوگ اس کے عادی نہ ہوجائیں۔‘
ڈاکٹر احسان چشتی کے مطابق ’نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں تجویز کردہ ادویات کا نشہ عروج پر ہے۔ بینزوڈائزپین کی ساخت کی بیشتر ادویات سمیت بہت سی درد کُش ادویات کا بھی غلط استعمال کیا جا رہا ہے۔‘
کیا یہ ادویات باآسانی دستیاب ہیں؟
’ٹاک ٹو می پاکستان‘ کے عدیل چوہدری نے بتایا کہ ’تعلیمی اداروں کے مضافات میں کریانے کی دکانوں اور چھوٹی فارمیسیز میں ان ادویات کو نسخے کے بغیر فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ امر اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ بہت سے طلبا ذہنی دباؤ کا شکار ہیں اور خود اپنا علاج کرنے کی کوشش میں مگن ہیں۔‘
ڈاکٹر ندیم اختر نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ ان کہ پاس متعدد مریض ایسے آئے جنھوں نے نسخے کے بغیر ان ادویات کو خریدا اور اب ان کے عادی ہوچکے ہیں۔
ان کے مطابق ’زینکس یا لیگزوٹینل کی ایک گولی آٹھ سے دس روپے تک کی ملتی ہے اور اس کی کم قیمت ہی کئی لوگوں کو اس نشے کی طرف راغب کرتی ہے۔‘
ڈاکٹر احسان چشتی کا کہنا تھا کہ ماضی قریب میں حکومت نے اس حوالے سے مثبت اقدامات اٹھائیں ہیں اور اب بہت سی بڑی فارمیسیاں یہ ادویات بغیر نسخے کے فروخت نہیں کرتیں۔
ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کے ڈپٹی ڈائریکٹر اختر عباس خان نے اس حوالے سے بتایا کہ ’گذشتہ سال مارچ میں ایک نیشنل ٹاسک فورس قیام میں آئی جس کا مقصد جعلی ادویات بنانے اور فروخت کرنے کے علاوہ ریکارڈ کے بغیر نشہ آور ادویات فروخت کرنے والوں کے خلاف کاروائی کرنا تھا۔‘
اختر عباس خان نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک تین ہزار سے زائد کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں اور ان کے خلاف کاروائی بھی عمل میں لائی گئی ہے۔ چونکہ صحت اٹھارویں ترمیم کے بعد ایک صوبائی معاملہ بن گیا ہے، اس لیے اس کی عمل داری سے متعلق ہر صوبے کا لائحہ عمل مختلف ہے۔
’ہم نے ادویات فروخت کرنے والے مراکز کو نسخوں کا ریکارڈ رکھنے کی تاکید کی ہے تاکہ نسخے کے بغیر کسی کو یہ ادویات فروخت نہ کی جائیں۔‘
’اپنا علاج آپ‘ کتنا خطرناک ہے؟
عدیل چوہدری کے مطابق ’طلبا میں یہ رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنے ذہنی مسائل کا خود علاج کرنے لگ جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پایا جانے والا مواد بیشتر اوقات بچے کو گمراہ کردیتا ہے۔
’ہمیں ہزاروں شکایات ایسے لوگوں کی موصول ہوئیں ہیں جنھیں ذہنی مسائل کا سامنا تھا مگر بجائے اس کے کہ وہ ماہرین سے رابطہ کرتے انھوں نے اِن نشہ آور ادویات کا استعمال مناسب سمجھا اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کے عادی ہوگئے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ حیران ہوں گے کہ اب تو اس حوالے سے بہت سی ڈیلوری سروسز بھی پائی جاتی ہیں جو خفیہ طور پر ان ادویات کی فراہمی ممکن بناتی ہیں۔‘
ڈاکٹر احسان چشتی نے کہا کہ ’بیشتر اوقات لوگ ادویات کی تجویز کردہ مقدار اور اوقات پر عمل نہیں کرتے، وقتی طور پر دی گئی دوا کا غلط استعمال کرتے ہیں اور جلد ان میں اس نشہ آور کیمیکل کی برداشت بڑھ جاتی ہے۔
’اس کی بدولت وہ دوا کی مقدار میں بتدریج اضافہ کرتے رہتے ہیں اور ان کے عادی ہوجانے کے بعد اُن کا نشہ چُھڑوانا مشکل ہو جاتا ہے۔