کنگنا رناوت نے فلم ‘منی کارنیکا، جھانسی کی رانی’ میں شاندار اداکاری سے باکس آفس پر کمال کر دکھایا لیکن انہیں شکایت ہے کہ بالی وڈ نے ہمیشہ انھیں نظرانداز کیا۔
حال ہی میں ایک انٹرویو میں کنگنا نے کہا کہ جب ان کی فلم ’کوئین‘ ہٹ ہوئی تو مبارکباد اور تعریف فلم کے ڈائریکٹر کو ملی انہیں نہیں۔ اس کے بعد فلم ’تنو ویڈز منو‘ کامیاب رہی لیکن بالی وڈ کی ہستیوں کے منھ بند رہے اور اب ’منی کارنکا‘ کی زبردست کامیابی پر بھی لوگ خاموش ہیں۔
کنگنا جی اصل تعریف وہ ہوتی ہے جو فلم کی کامیابی کی صورت میں عوام آپ کو دیتی ہے اور وہ آپ کی زیادہ تر فلموں کو ملی ہے۔ رہی بات انڈسٹری کی تو آپ کیوں منھ پھاڑ کر لوگوں کو لتاڑتی ہیں۔
کبھی رتک روشن تو کبھی کرن جوہر تو کبھی شیکھر سمن اور خانوں کو تو آپ پہلے ہی ناکارہ بتا چکی ہیں۔ منی کارنیکا کی شوٹنگ کے دوران کئی لوگ بقول خبروں کے آپ کے رویے کے سبب فلم چھوڑ کر چلے گئے جن میں بیچارے سونو سود بھی شامل ہیں۔
شوبز ڈائریز پڑھیے!
رنویر دیپیکا کا نام اپنانے پر کیوں آمادہ ہوئے؟
26 سیکنڈ کے کلپ نے ’ڈریم گرل‘ بنا دیا
اب بالی وڈ سے مودی کیا چاہتے ہیں؟
شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان ہیرو نہیں بننا چاہتے
’96 کلو وزن کے ساتھ ہیروئن کیسے بن سکتی تھی’
کامیابی کا ایک اور راستہ ہے اور وہ ہے شائستگی اور نرم گفتاری، چاہیں تو آزما کر دیکھ لیں۔
’نظریہ ہو یا لباس یہ آپکی اپنی چوائس ہونی چاہیے’
اس ہفتے انڈین موسیقار اے آر رحمان اور ان کی بیٹی سوشل میڈیا کے نشانے پر رہے۔
حال ہی میں فلم ‘سلم ڈاگ ملینیئر’ کے دس سال پورے ہونے کے موقع پر ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں اے آر رحمان کی بیٹی خدیجہ نے سٹیج پر اپنے پاپا کا انٹرویو کیا۔
جیسے ہی برقعے میں لپٹی ان کی بیٹی خدیجہ سٹیج پر پہنچیں تو کچھ مخصوص ذہن کے لوگو ں نے انھیں قدامت پسند کا لقب دینے کو کوشش کی۔
سوشل میڈیا پر ٹرولز کے جواب میں اے آر رحمان نے اپنے گھر کی خواتین کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ‘فریڈم ٹو چوز’ یعنی انتخاب کی آزادی۔ اس تصویر میں اے آر رحمان کی بیگم اور دوسری بیٹی بغیر حجاب کے اور خدیجہ حجاب میں انیل امبانی کی بیگم کے ساتھ کھڑی ہیں۔
تصویر سے ظاہر ہے کہ چاہے کوئی خیال ہو، نظریہ یا پھر لباس چھوٹا یا بڑا یہ آپ کی اپنی پسند ہونی چاپیے۔ لیکن یہ ایک مخصوص ذہنیت ہے جو یہ بات سمجھنے سے قاصر ہے کہ جس طرح بڑے بڑے تلک لگانے والا ہر مرد یا عورت سخت گیر ہندو نہیں ہوتا اسی طرح نقاب یا داڑھی رکھنے والا ہر مرد یا عورت ‘قدامت پسند’ نہیں ہوتا۔
بہرحال اس وقت انڈیا میں الیکشن کا زور ہے اور بھگت لوگ پاکستان یا مسلم مخالف ہر اس چیز کو نشانہ بنانے کی کوشش میں ہیں جو ان کے خیال میں ان کی جماعت کو کامیابی دلوانے میں مدد کر سکتی ہے۔
شتروگھن سنہا اور ’می ٹو‘
دوسروں کو خاموش کہنے والے اداکار شاٹ گن شتروگھن سنہا جو اب ‘منجھے ہوئے’ سیاست دان بن چکے ہیں۔ اکثر اپنی ہی پارٹی بی جے پی کے خلاف بولتے نظر آتے ہیں فلموں اور سیاست کے بعد شترو جی نے اب ‘می ٹو’ مہم پر بھی بولنا شروع کر دیا۔
شتروگھن سنہا کا کہنا ہے جس طرح ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے اسی طرح ہر کامیاب آدمی کو گِرانے میں بھی ایک عورت کا ہی ہاتھ ہوتا ہے۔ اب پتہ نہیں شترو جی اپنے کس دوست کی بات کر رہے ہیں۔ ساجد خان، آلوک ناتھ، سبھاش گھئی یا پھر نانا پاٹیکر، ناموں کی فہرست کافی لمبی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ شترو جی نے اس بات کا شکر بھی کیا کہ ابھی تک ان کا نام نہیں لیا گیا۔ حالانکہ شترو گھن سنہا نے یہ تمام باتیں کہنے کے بعد یہ بھی کہا کہ ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں بلکہ مذاق میں لیا جائے۔
لیکن می ٹو کی اس مہم میں جو لڑکیاں اور خواتین انتہائی جرات اور حوصلے کے ساتھ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو بیان کرنے کے لیے سامنے آئی ہیں وہ مذاق نہیں کر رہیں بلکہ ایک تلخ اور شرمناک حقیقت بیان کر رہی ہیں۔