جب برطانیہ سے آزادی کے بعد یوگنڈا کے پہلے صدر ملٹن اوبوتے کا جھکاؤ سوویت یونین کی جانب ہونے لگا تو مغربی طاقتوں کی بلا واسطہ رضامندی کے ساتھ یوگنڈا کی مسلح افواج کے سربراہ عیدی امین نے جنوری انیس سو اکہتر میں اس وقت اوبوتے کا تختہ الٹ دیا جب وہ دولتِ مشترکہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے سنگاپور میں تھے۔
اگست انیس سو بہتر میں صدر امین نے غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا۔ اور سب سے زیادہ نزلہ نوآبادیاتی دور سے یوگنڈا میں آباد اسی ہزار ایشیائیوں (گجراتیوں ) پر گرا۔ صرف یہ اجازت ملی کہ غیر ملکی ڈاکٹر، وکلا اور اساتذہ معینہ مدت کے لیے قیام کر سکتے ہیں۔ باقیوں کو نوے دن کے اندر ملک چھوڑنا تھا بصورتِ دیگر منقولہ و غیر منقولہ املاک کی ضبطی کے ساتھ بے دخلی کا مڑدہ سنایا گیا۔
چنانچہ برطانوی نوآبادیاتی دور کے پاسپورٹ یافتہ ایشیائیوں نے جنوبی افریقہ، کینیا، بھارت، پاکستان، آسٹریلیا، امریکا اور کینیڈا کی راہ لی۔ ان میں سے تیس ہزار برطانیہ جا کر بس گئے۔ غیرملکیوں کی بے دخلی کی پالیسی کی وضاحت اور دفاع کرتے ہوئے عیدی امین نے کہا ”ہمارا مقصد یوگنڈا کے عام باشندوں کو اپنی قسمت کا مالک بنانا ہے تاکہ وہ ملکی دولت میں پورے حصے دار ہو سکیں۔ یوگنڈا کی معیشت یوگنڈا کے باشندوں کے کنٹرول میں ہونی چاہیے۔ ہمارے لیے پہلے یوگنڈا ہے بعد میں کچھ اور“۔ ۔ ۔
امریکی سفیر تھامس پیٹرک میلاڈی نے امریکی محکمہ خارجہ سے سفارش کی کہ امین حکومت سے تعلقات پر نظرِ ثانی کی جائے۔ کیونکہ یہ حکومت نسل پرست، ظالمانہ، نا اہل، غیر عاقلانہ، اشتعال انگیز، ناقابلِ اعتبار عسکری سوچ پر مبنی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ چنانچہ کمپالا میں امریکی سفارتخانے کو تالا لگا کے سفارتی عملہ روانہ ہو گیا۔ اس کے بعد امین نے ”خون چوس“ مغربی باشندوں کو بھی قومی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا۔
چنانچہ اسرائیل سمیت بیشتر ”مہذب“ دوستوں نے امین حکومت کا عالمی بائیکاٹ کردیا۔ برطانیہ سمیت یورپ کے کئی ممالک اور امریکا میں عیدی امین کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی کیونکہ ان کی پالیسیاں اقوامِ متحدہ کے چارٹر برائے انسانی حقوق سے براہِ راست متصادم تھیں۔ عیدی امین کو مغربی ذرائع ابلاغ میں قصائی، جنسی درندہ، مخالفین کے خون کا پیاسا، پاگل، ابلیس، کالا جادوگر، مسخرہ، بن مانس اور جانے کیا کیا قرار دیا گیا۔ انیس سو اٹھہتر میں عیدی امین کو تنزانیہ میں جلا وطن معزول صدر ملٹن اوبوتے کے دستوں نے مغربی تائید سے معزول کردیا۔ امین نے پہلے لیبیا اور پھر جدہ میں پناہ لی اور دو ہزار تین میں وہیں انتقال ہو گیا۔
یوگنڈا میں تو یوگنڈائی ہزاروں برس سے رہ رہے ہیں۔ مگر عالمی تاریخ میں غیرقانونی تارکینِ وطن نے امریکا نامی ایک پورا براعظم تخلیق کیا۔ اس براعظم میں داخل ہونے والا پہلا غیرقانونی تارکِ وطن کولمبس نامی ایک شخص تھا۔ مگر کولمبس کی آمد کے بعد کے اگلے ساڑھے چار سو برس کے دوران امریکا ”غیر قانونی تارکِ وطن“ کی اصطلاح سے ناواقف رہا۔ جب کہ پچانوے فیصد ریڈ انڈین اس اصطلاح کا پورا مطلب سمجھنے سے پہلے ہی ختم ہو گئے اور جو آج تبرکاً موجود بھی ہیں وہ اپنے ہی وطن میں تارک الدنیا ہیں۔
انیس سو بیس کے عشرے تک میکسیکو کے باشندے آزادانہ ان سابق میکسیکن ریاستوں میں صنعتی و زرعی مزدوری کے لیے آیا جایا کرتے تھے۔ بالکل ایسے ہی جیسے نیپالی بغیر ویزے کے بھارتی ریاستوں میں آ جا سکتے ہیں یا کچھ عرصے پہلے تک یمنی سعودی عرب میں مزدوری کر سکتے تھے۔ مگر انیس سو چوبیس میں امیگریشن ایکٹ کے نفاز کے بعد حالات بدل گئے۔ انیس سو انتیس میں جب امریکا عظیم کساد بازاری کی لپیٹ میں آیا تو اس کا نزلہ پہلی بار تارکینِ وطن پر گرا جو اب تک سرحد پار سے امریکا میں آنے جانے کے لیے قانونی دستاویزات سے ناواقف تھے۔
صدر ہربرٹ ہوور نے انیس سو انتیس تا تینتیس چار سالہ دور میں عظیم کساد بازاری سے تباہ حال امریکیوں کا دل جیتنے کے لیے ایک لاکھ اکیس ہزار میکسیکن باشندوں کو سرحد پار دھکیل دیا۔
دوسری عالمی جنگ کے فوراً بعد صدر ٹرومین نے چونتیس لاکھ تارکینِ وطن ( میکسیکنز ) کو واپس بھیج دیا کیونکہ جنگ کے بعد خود امریکی باشندوں کے لیے بھی روزگار پیدا کرنا تھا۔ ٹرومین کے بعد آنے والے صدر آئزن ہاور نے بھی اپنے دور میں تیرہ لاکھ تارکینِ وطن کو غیر قانونی قرار دے کر ہنکال دیا۔ ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے ملی جلی پالیسی اختیار کی۔ کبھی سختی تو کبھی نرمی۔ آخری بار بل کلنٹن کے دور میں دس برس سے زائد عرصے سے قیام پذیر غیر قانونی تارکینِ وطن کو امریکی شہریت ملی۔ اس سے تقریباً ایک ملین لوگوں کو فائدہ ہوا۔
دو ہزار آٹھ میں جب امریکا ایک بار پھر اقتصادی بحران کی زد میں آیا تو توجہ دوبارہ تارکینِ وطن کی جانب مڑ گئی کیونکہ انھیں قربانی کا بکرا بنانا آسان ہوتا ہے۔ کسی غیر قانونی باشندے کو جرائم پیشہ، ریپسٹ، کاہل، امریکا کو نقصان پہنچانے والے اور ٹیکس دہندگان کے خون پر پلنے والا کہنے سے کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ غیر قانونی تارکِ وطن اپنی توہین کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کر سکتا۔
غیر قانونی تارکینِ وطن کو جزا و سزا کے پل صراط پر لٹکائے رکھنے کے کئی فائدے ہیں۔ ان سے قانونی باشندے زرعی و صنعتی بیگار لے سکتے ہیں۔ ان کی روک تھام کے قوانین بنانے والے ارکانِ کانگریس، سرکاری اہلکار، سرمایہ دار اور سیاستدان وغیرہ چوری چھپے گھریلو ملازم رکھ سکتے ہیں اور جب ووٹ بٹورنے ہوں تو انھیں جمہوریت کی قربان گاہ پر موقع پرستی کی چھری تلے با آسانی لٹانا بھی آسان ہے۔
اگر غیر قانونی تارکینِ وطن ہی امریکا کا خون چوس رہے ہوتے اور امریکیوں کو ان کی آمد سے سراسر نقصان ہی ہوتا تو آج اسی امریکا میں ایک کروڑ دس لاکھ غیر ملکی چوری چھپے نہیں رہ رہے ہوتے۔ یقیناً یہ ان فضائی، بحری اور بری سرحدوں سے گزر کے امریکا میں داخل ہوئے جن کی نگرانی چاق و چوبند ادارے چوبیس گھنٹے کرتے ہیں۔ ان میں سے باون فیصد غیر قانونی تارکینِ وطن میکسیکن ہیں۔ ناجائز تارکینِ وطن کی کل تعداد کا ساٹھ فیصد چھ امریکی ریاستوں (کیلی فورنیا، ٹیکساس، فلوریڈا، نیویارک، نیو جرسی اور الی نائے ) میں پایا جاتا ہے۔ لگتا ہے کہ ان چھ ریاستوں کے امیگریشن اور پولیس حکام کی نگاہ خاصی کمزور ہے۔