پی ٹی ایم کے پشاور جلسے میں پہلی بار ڑوانگہ لونی کا نام سنا۔ وہ کوئٹہ کی نمائندگی کررہی تھی۔ بتایا گیا کہ اس کا تعلق ضلع سنجاوی زیارت سے ہے۔ پانچ منٹ کا اس نے خطاب کیا۔ سامعین کو ایک آنکھ ہنسایا اور ایک آنکھ رلایا۔ دوسری بار اسے کراچی جلسے میں دیکھا۔ وہ ثنا اعجاز کے ساتھ پنڈال کا جائزہ لے رہی تھی۔ میں نے علی ارقم سے کہا، اس بات نے قدرے حیرت میں مبتلا کیا ہوا ہے کہ جس قبیلے میں عورت کا روشن دان سےسر نکالنا قیامت ہے اس قبیلے کی لڑکی عقیدوں اور یقینوں سے نکل کر کیسے سوچ رہی ہے۔ سوچ ہی نہیں رہی بلکہ عملی طور پر میدان میں موجود بھی ہے۔ علی ارقم نے تفصیلی جواب دینے کی بجائے اتنا کہا، یہ ارمان لونی کی بہن ہے!
کراچی جلسہ جوبن پہ تھا۔ اندھیرا بہت گہرا ہوچکا تھا اور ہرآنکھ منظورپشتین کی منتظر تھی۔ منظور کا کنفرم ٹکٹ اسلام آباد ائیرپورٹ پر کھڑے کھڑے کینسل کردیا گیا تھا۔ دوسری فلائٹ لاہور ائیرپورٹ سے کنفرم ہوئی۔ دوستوں نے ایکسیلیٹر پر پاوں رکھا تو لاہور میں اٹھایا۔ لاہور ائیرپورٹ پر منظور کی گاڑی کو سیکیورٹی مراحل میں تب تک الجھائے رکھا جب تک طیارے نے اڑان نہ بھرلی۔ لاہور سے سلیمان خیل قبیلے کے حفاظتی دستے منظور کے ساتھ ہوئے اور زمینی راستے پرکراچی کے لیے گاڑیاں ڈال دیں۔
جلسہ گاہ میں کبھی اس کی گرفتاری کی خبر پہنچتی اور کبھی تفتیش کی۔ یقینا حکمتِ عملی یہی رہی ہوگی کہ رستے میں اسے اتنا الجھایا جائے کہ جلسہ بکھرجائے۔ حالت مگر یہ تھی کہ کراچی کی آئی ہوئی خواتین تک بھی اپنی جگہ چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھیں۔ قریب بارہ بجے ثنا اعجاز نے اعلان کیا کہ منظور کراچی ٹول پلازے پر پہنچ گیا ہے۔ یہ آواز سماعتوں پر پڑنے کی دیر تھی کہ مجمع ٹوٹ پڑا۔ ایک نوعمر لڑکا بجلی کی سی رفتار سے میری بغل میں آدھمکا۔
اس کا گھٹنہ اس زور سے میری پسلیوں میں لگا کہ سانس اٹک گیا۔ میں نے برہم ہوکر سے اس کی جانب دیکھا مگر دیکھتے ہی ساری برہمی ہوا ہوگئی۔ لڑکے کے نین نقش بالکل ایسے جیسے ڑوانگہ لونی کی کاربن کاپی ہو۔ میں اس کا نام بھول چکا، مگر اگلا سوال میں نے یہی کیا کہ ڑوانگہ تمہاری کیا لگتی ہے؟ میری ہتھیلی پر کالے چنے رکھتے ہوئے بولا، میری بہن ہے۔ ارمان لونی کہاں ہے؟ اطمینان سے جواب دیا، وہ جیل میں ہے!
کوئی دوچار ماہ قبل ہمایوں ایڈوکیٹ نے ارادہ ظاہر کیا کہ خان عبدالصمد خان کی سوانح پر اردو میں کچھ کام ہونا چاہیے۔ کچھ ہی دن بعد ہمایوں سے اس کے ارادے کے متعلق پوچھا تو جواب آیا، خان شہید کی پشتو اس قدر ثقیل ہے کہ اس پر ہاتھ آزمانا مشکل لگ رہا ہے۔ دشوار گزار عبارتوں کو ہموار کرنے کے لیے کتاب پشتوزبان کے ایک ماہر کو سونپ دی ہے۔ اس گفتگو کے کچھ دن بعد میں خود کوئٹہ میں تھا۔ ہمایوں کے ساتھ کبیر بلڈنگ کے پیچھے سید ہوٹل پرہماری سنگت لگی۔
خدا اس جگہ کو آباد رکھے۔ شام کے بعد علم و شعور یہاں ٹولی ٹولی چہچہاتے ہیں۔ کہیں کتاب تو کہیں خیالات زیر بحث ہوتے ہیں۔ ایک میز کے گرد مختلف الخیال اذہان جمع تھے۔ وہیں ہم نے بھی کرسیاں سیدھی کردیں۔ کوئی محمود خان اچکزئی پر سوال اٹھارہا ہے تو کوئی دفاع کررہا ہے۔ کوئی خلق اور پرچم کی مثالیں دے رہا ہے تو کوئی اے این پی سے نالاں ہے۔ شنی چائے پر یہ گرماگرمی جاری ہے کہ سامنے سے ایک جوانِ رعنا چلا آرہا ہے۔ مضبوط کندھے، روشن جبیں، ادھڑا گریبان اور بوسیدہ جوتے۔ ہمایوں سے ابھی میں نے پوچھنا تھا کہ یہ شخص جو آرہا ہے ڑوانگہ کا کیا لگتا ہے، وہ ہم تک پہنچ گیا اور مجمع کھڑا ہوگیا۔ حال احوال کے بعد ہمایوں نے اس سے پوچھا، خان صمد خان والی کتاب کا کیا ہوا؟ جواب آیا، وہ تو تقریبا مکمل ہوگئی ہے۔
ارمان لونی پسماندہ علاقے غریب گھرانے سے تھا۔ والد ٹیکسی چلاتے تھے اور خود کوئلے کی کانوں میں آب و دانہ ڈھونڈتا تھا۔ پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کیا اور کوئٹہ ڈگری کالج میں پشتو ادب کا استاد مقرر ہوا۔ رات کے آخری پہر شعر کہتا، دن کو تدریس کرتا جو وقت بچ جائے وہ بلوچستان یونیورسٹی میں جاری ایم فل کے لیے وقف رکھتا۔ روح اس کی پہلے ہی بے چین تھی مگر منظور نے آواز دی تو درد در کی خاک چھان آیا۔
ہر سیاسی تحریک اور جماعت میں کچھ نام اسمِ اعظم جیسے ہوتے ہیں۔ ان کا پسینہ پڑھے ہوئے پانی جیسا ہوتا ہے۔ ہر بلا اور ہرمشکل انہی کے دم قدم سے ٹلتی ہے۔ یہ گمنام لوگ خمیازے کے خوف اور کرم کی امید سے بے نیاز ہوکر منزل کا قرض اتارتے چلے جاتے ہیں۔ ارمان لونی یہی کچھ تھا۔ وہ شاعر تھا اور استاد بھی۔ اس لیے یہ فیصلہ مشکل ہے کہ وہ تحریر میں عمدہ تھاکہ تقریر میں اعلی۔ بلکہ احمد فراز کی زبان میں یوں کہنا چاہیے کہ لوچ کماں کا زباں تیر کی تھی۔ اس کے باوجود وہ کبھی پی ٹی ایم کے کسی سٹیج پر نظر نہیں آیا۔
لاکھوں نظروں سے وہ تصویر گزرچکی ہے جس میں ارمان بستر ہاتھ میں پکڑے کھڑا ہے۔ یہ تب کی ہے جب کراچی جلسے کے لیے وہ کراچی پہنچاتھا۔ وہ ایسا ہی تھا۔ عبدالحئی کاکڑ کی زبان میں کہیے تو اس نے تبلیغی جماعت کا انداز اپنایا ہوا تھا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں جلسہ ہو یا کراچی میں دھرنا، بستر اٹھایا پہلی بس پکڑی اورہنستا مسکراتا پہنچ گیا۔ خلوص کو مجسم دیکھنا ہو تو کچھ نہ کریں، بس تصور ہی کرلیں کہ ایک شاعر و استاد اجنبی شہر کے کسی چوک میں کھڑا پمفلٹ بانٹ رہا ہے۔ وہ پمفلٹ بانٹ رہا ہے کہ بندوقچیوں نے اس کا گھیراؤ کرلیا ہے۔ بس یہ ارمان لونی ہے!
ارمان ظاہرہے کہ ترقی پسند رجحانات رکھتا تھا۔ مگر ہماری طرح تن آساں ہرگزنہیں تھا۔ کسی کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنے کے بجائے وہ اپنے گھر میں جھانکتا تھا۔ ڑوانگہ گھر سے نکلی تو اس نے اپنی ”غیرت“ کو سلادیا۔ ڑوانگہ نے پڑھنا چاہا تو اس نے محنت کا دورانیہ بڑھادیا۔ ڑوانگہ نے عملی کردار کے لیے سیاست کی پرخار پگڈنڈیوں پر قدم رکھا تو اس نے تلوے کے نیچے ہتھیلی جما دی۔ اس معاشرے میں بیٹی جنم نہ لے۔ جنم لے تو واحد بلوچ جیسا باپ اور ارمان لونی جیسا بھائی ملے۔
ایسا نہ ہو تو پھر اس حساس پیکر کو وہ طاقتِ پرواز ملے جو جبر کے قفس کو توڑ کے نکل سکے۔ ارمان نے ڑوانگہ کے کردار کا اعتراف ہی نہیں کیا بلکہ ڑوانگہ کو اپنا رہنما کیا۔ خود پس منظر میں رہنے والا بے نام و نشاں کارکن ہو گیا۔ جو کیا ڑوانگہ سے پوچھ کر کیا۔ کہنے والے کہہ رہے ہیں کہ ”وہ ڑوانگہ کو سٹیج تک پہنچاتا تھا“۔ نہیں بھائی ایسا نہیں تھا۔ ارمان ڑوانگہ کو پہنچاتا نہیں تھا، ارمان اس کے ساتھ چلا جاتا تھا۔ تب کہ جب ڑوانگہ کو ارمان کی ضرورت ہوتی تھی۔
یہی تو ساری بات ہے۔ ہم ایسے لوگ تو ڑوانگہ کے ہر کردار کو ارمان کے کھاتے میں ڈال کے ہلکان ہورہے ہیں۔ مگر ارمان سے پوچھا تو کہنے لگا، اس میں ایسی کوئی حیرت کی بات نہیں، ڑوانگہ جو کررہی ہے وہ اس کا اپنا کردار اپنی صلاحیت اور اپنی ہی ذہانت ہے۔ ، اگر اس کا اپنا آہنگ و بانکپن نہ ہو تو میں کیا کرسکتا ہوں، ایک میں ہی اس کا ساتھی نہیں ہوں، میری ہر مشکل کا سامان بھی تو ڑوانگہ ہے، یہ احسان نہیں ہے بلکہ ہم برابر کے درجے میں ایک دوسرے کا سہارا ہیں، ڑوانگہ کی کامیابیوں کے پیچھے میں ہوں یا نہیں میری ہر پیش قدمی کے پیچھے ڑوانگہ ضرور ہے۔
ارمان کی بات بالکل درست ہے۔ یقین نہ آئے تو دنیا لٹ جانے کے بعدڑوانگہ کا وہ حوصلہ دیکھ لینا چاہیے جو کہہ رہا ہے ”صرف میری دنیا نہیں اجڑی، ہر اس شخص کی دنیا اجڑی ہے جو ستر برس سے اس سوال کا جواب ڈھونڈرہا ہے کہ میں کون ہوں کہاں ہوں“۔ پھر کہتی ہے، ہمیں تشدد پہ اکسایا جارہا ہے، ہم تشدد نہیں کریں گے!
ڑوانگہ جیسی باغی صفت روحیں ہزار پابندیوں کے باجود بھی پنجرے پر سرخ نقش چھوڑ کر نکل جاتی ہیں۔ ارمان کے بس اس لیے صدقے جائیں کہ کردار پراس نے سوال نہیں اٹھایا۔ اپنی کوتاہیوں کو بہن کے دوپٹے میں پناہ لینے نہیں دیا۔ روایت در روایت ملنے والی ”غیرت“ کو ابدی سچائی کے آڑے آنے نہیں دیا۔ قبائلی معاشرے سے ملنے والی مردانگی کو سر اٹھانے نہیں دیا۔ ارمان! تم زمین زاد نہ ہوتے تو ستارہ ہوتے