پاکستان اس دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ہمارے مسلمان بھائی غریبوں کے ٹیکس اور زکواۃ کے پیسوں سے حج کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ تعالی نے حج ان لوگوں پر فرض کیا ہے جس کی استطاعت ہو۔ اسلام تو آپ کو اس حد تک نرمی مہیا کرتا ہے کہ اگر اپ کے پیسے نہیں تو قرض لے کر حج کرنا کم ازکم شرعی لاجک کے خلاف تصور ہوگا۔
اب حقائق کی بات کرتے ہیں۔ پاکستان کو اس سال سعودی عرب سے 189200 افراد کو حج کی ادائیگی کا کوٹہ ملا ہیں۔ پچھلے سال حج کا خرچہ تقریباً 280000 روپے تھا اس سال خرچہ بڑھ کر 462000 ہو گیا ہیں۔ یہ 63 فیصد کا اضافہ ہے جو کہ بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس کے پیچھے کچھ عوامل ہیں۔
حکومت پاکستان جب ایک حاجی سے 462000 روپے لے گی تو اس میں 323400 روپے براہ راست سعودی حکومت کو ادا کیا جائے گا۔ باقی پیسے ائیر ٹکٹ کی مد میں جاتے ہیں۔
اب فرض کریں کہ اگر حکومت اس پر پچھلی حکومت کی سبسڈی جاری رکھتی تو ایک حاجی کو حج تقریباً 262000 میں پڑتا۔ جبکہ ریاست کو ایک حاجی کا خرچہ 462000 روپے پڑتا ہے۔ اب اپ اندازہ لگائیں کہ پچھلی حکومت کیسے صاحب استطاعت لوگوں کو ریاستی ٹیکس اور زکواة سے سبسیڈی دے رہی تھی اور تین سال تک حج کی کی فیس میں اضافہ نہیں کیا گیا۔
سادہ الفاظ میں ایسے فیصلے ”پاپولر“ کہے جاتے ہیں۔ عمران خان نے ایک بہترین فیصلہ کیا ہے۔ عمران خان کو ہم نے ووٹ ”پاپولر“ فیصلوں کے لئے نہیں بلکہ ملکی مفاد کے فیصلوں کے لئے دیا ہیں۔
نواز شریف کی حکومت نے تین سال حج کے کرایوں میں اضافہ نہیں کیا۔ باوجود اس کے کہ 2015 میں ڈالر 100 کا تھا اور 2018 میں 123 کا۔ اب ڈالر 138 کا ہے۔ تو جو حج کرایہ 2015 میں 100 روپے کے ایک ڈالر کے حساب سے 262000 تھا وہ حج کرایہ 2019 میں 138 روپے ایک ڈالر کے حساب سے 262000 کیسے رہ سکتا تھا؟
حکومت پاکستان کا بجٹ ہمیشہ خسارے کا بجٹ ہوتا ہے۔ اپکے پاس ڈالر کی شدید کمی ہے۔ ملک شدید معاشی بحران کا شکار ہے اس صورتحال میں موجودہ حکومت ایک حاجی کو 230000 روپے کی سبسیڈی کیسے دے؟
ایک حاجی کو 230000 روپے سبسیڈی دینے کا مطلب ریاست ٹوٹل 44 ارب روپے کی سبسیڈی برداشت کریں؟ کیوں کریں؟ جس پر حج فرض ہے وہ اپنے جیب سے کرے غریبوں کے ٹیکس اور زکواة سے نہ کرے۔