برصغیر کا معاشرہ بھلے ہی بڑی تیزی سے ترقی کر رہا ہو لیکن نظریاتی اعتبار سے ہم میں سے زیادہ تر محتاط ہی واقع ہوئے ہیں۔ ہمارے یہاں جو چیزیں ابھی بھی معیوب تصور کی جاتی ہیں ان میں سے ایک سیروگیسی یا کرائے کی کوکھ بھی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گذشتہ کچھ عرصہ میں اس موضوع پر گفتگو بڑھی ہے۔ اس کی وجہہ شاید یہ ہے کہ فلمی دنیا کے کچھ مشہور افراد نے سیروگیسی کو اپنایا ہے۔
بات سرحد کے اس طرف کی ہو یا پھر اس پار کی، بڑے پردے پر نظر آنے والے سیلیبریٹیز کا غلبہ عموما ہم میں سے بہت سوں کے دل و دماغ پر رہتا ہے۔ حالت یہ ہے کہ یہ فلمی ستارے ہماری زندگی میں کچھ اس طرح سے شامل ہیں کہ اپنے محبوب اداکاروں کی نقل کرنے میں بعض اوقات ہم ساری حدیں تک پار کر جاتے ہیں۔ ان کے فیشن کا اسٹائل ہو یا پھر بالوں کا، کھانے پینے سے لے کر رہن سہن تک سب کچھ ہماری دلچسپی کا مرکز بنے رہتے ہیں۔ گلیمر سے بھری اس انڈسٹری میں اب کرائے کی کوکھ ایک ٹرینڈ سا بن گئی ہے۔
تازہ معاملہ بھارتی ٹیلی ویژن انڈسٹری میں ڈیلی سوپ کی مشہور ڈائریکٹر ایکتا کپور کے سیروگیسی کے ذریعے ماں بننے کا ہے۔ اپنے ٹوئیٹ کے ذریعہ انہوں نے بے حد خوشی کے ساتھ اس کا اعلان کیا کہ وہ ایک بے بی بوائے کی ماں بن گئی ہیں۔ انہوں نے لکھا کہ ویسے تو وہ کئی محاذوں پر کامیاب رہی ہیں لیکن اِن سب سے بڑھ کر انہیں سب سے زیادہ خوشی ماں بننے کی ہو رہی ہے۔ ایکتا کپور کے مطابق وہ بے حد سعادت محسوس کر رہی ہیں اور یہ انکی زندگی میں ایک نئے سفر کی شروعات ہے۔
ایکتا کپور کے لفظ ان کی خوشی اور جذبات کا پوری طرح اظہار تو نہیں کر سکتے لیکن ان کی مسرت کا احساس ضرور کرا رہے ہیں اور ہوں بھی کیوں نہ کہ یقینا ماں بننا ایک لاثانی احساس ہے جس سرشاری کا کوئی بدل نہیں۔ یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مذہبی اور لامذہبی دونوں ہی بیانیہ ایک پیج پر نظر آتے ہیں۔ ہمارا مذہبی بیانیہ ماں کو بہت فضیلت دیتا ہے۔ اللہ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی اور شاید اس کا ایک سبب یہ ہے کہ وہ بچے کو پیٹ میں رکھنے کے دوران جن تکالیف سے گذرتی ہے، جس طرح اپنے کھانے پینے میں تبدیلی کرتی ہے اور زچگی کا وہ درد سہتی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس اذیت سے گذرنا گویا دوسرا جنم لینا ہے۔ اس کی انہیں آزمائش اور قربانیوں کو اللہ کی بارگاہ میں انتہائی قدر و منزلت حاصل ہے جس کے انعام کے طور پر اس کے قدموں تلے جنت کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ ایکتا کپور کے معاملہ میں تبدیلی یہ ہے کہ انہیں مذکورہ بالا مراحل سے گذرے بغیر اولاد کی نعمت مل گئی۔ ہماری نیک تمنائیں ایکتا کے ساتھ ہیں۔
فلمی ہستیوں کے مداحوں کی عمومی نفسیات ہوتی ہے کہ وہ اپنے محبوب اداکار یا اداکارہ کی خانگی زندگی کی ٹوہ لینا چاہتے ہیں مثلا کس سے معاشقہ ہوا، کس سے شادی کا پلان بن رہا ہے، شادی کب ہے، شادی ہو گئی تو بچے کب ہوں گے وغیرہ وغیرہ۔ ایسے سیماب صفت چاہنے والوں کو جب اچانک ایک ٹوئیٹ کے ذریعہ ایکتا ایسی خبر سنائیں تو دل کا کیا رنگ ہوتا ہو گا سمجھا جا سکتا ہے۔
ویسے اس معاملہ میں بھائی بہن سے پیچھے نہیں ہے۔ ایکتا کپور سے پہلے ان کے چھوٹے بھائی تشار کپور بھی سیروگیسی کے ذریعے باپ بننے کا شرف حاصل کر چکے ہیں۔ معلوم ہوا کہ بہن بھائی نے اپنے والدین کو بنا ہلدی پھٹکری لگے دادا دادی اور نانا نانی کا درجہ دلا دیا ہیں۔ ویسے بھی ماں باپ کو اولاد سے اسی خوشی کا تو انتظار رہتا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جلد سے جلد گھر میں کوئی ننھا منھا مہمان آجائے جس کی کلکاریاں سارے گھر میں گونجیں۔ ایکتا اور تشار نے ماں باپ کو یہ خوشی تو دے دی البتہ شادی کے حوالے سے انہوں نے اپنے والدین کو ضرور مایوس کیا ہے۔
نظر ڈالئے تو فلمی دنیا میں ایسی کئی مثالیں ہیں جنہوں نے شادی نہ کر کے سنگل پیرینٹ بننے کا فیصلہ کیا۔ ایکتا کپور کے ہی مشہور سیریل “کہانی گھر گھر کی” میں پاروتی کا کردار ادا کرنے والی ساکشی تنور نے بھی اپنے والدین کے تعاون سے ایک بچی کو گود لے رکھا ہے۔ سابق مس یونیورس سشمیتا سین جو زندگی کی چالیس سے زیادہ بہاریں دیکھ چکی ہیں انہوں نے جب وہ پچیس برس کی تھیں شادی نہ کر کے ایک بچی گود لے لی اور اب وہ دو بچیوں کی پرورش کر رہی ہیں۔
اداکارہ روینا ٹنڈن بھی جب 21 سال کی تھی تو انہوں نے دو لڑکیوں کو گود لے لیا تھا۔ غیر شادی شدہ ہوتے ہوئے بھی اولاد پالنے کا حوصلہ صرف یہ اداکارائیں ہی نہیں دکھا رہی ہیں بلکہ مرد حضرات کے دلوں میں بھی باپ بننے کی چاہ لہریں لے رہی ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلا نام ہدایت کار کرن جوہر کا ہے جنہوں نے سیروگیسی کے ذریعے دو بچوں کو اپنایا ہے۔
بھارتی فلم انڈسٹری میں ایسی مثالیں بھی ہیں جہاں ضرورت کے طور پر کام آنے والے سیروگیسی کے اس عمل کو اُن جوڑوں نے بھی اپنایا جو پہلے سے صاحب اولاد تھے اور بظاہر دوبارہ بھی والدین بن سکتے تھے لیکن انہوں نے ممکنہ طور پر جسمانی خدوخال میں تبدیلی کے اندیشہ یا کچھ اور وجوہات کی بنا پر سیروگیسی کے راستے کو اپنایا۔ ایسے لوگوں میں سلمان خان کے چھوٹے بھائی سہیل خان، عامر خان، شاہ رخ خان، لیزا رے وغیرہ شامل ہیں ۔
آخر میں اس نکتہ پر دھیان دینے کی ضرورت ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ سیروگیسی ان جوڑوں کے لئے نعمت ہے جو اولاد کی چاہت میں ہر ممکن طریقہ اپنانے کو تیار ہیں۔ میڈیکل سائنس ایسے ضرورت مندوں کی مدد کے لئے کرائے کی کوکھ کا یہ طریقہ ڈھونڈ لائی جو اب دنیا بھر میں کامیاب ہے۔ برصغیر میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں عورت کو بانجھ بتا کر نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے اور مرد ایسی عورت بیاہ لاتا ہے جو بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ایسی صورتوں میں سیروگیسی نے لوگوں کو ایک متبادل ضرور دے دیا ہے۔
ممکن ہے کہ اس عمل سے پیدا ہونے والی اولاد اور عام طریقے سے پیدا ہونے والے بچوں سے والدین کے جذباتی تعلق کی نوعیت میں فرق ہو لیکن اس عمل نے دنیا کی ایک بڑی آبادی میں تیزی سے جگہ بنائی ہے۔ البتہ کچھ لوگوں کو یہ اندیشہ ضرور ہو سکتا ہے کہ بنا ضرورت فلمی ہستیوں کا سیروگیسی کی طرف جانا ان کے شائقین میں شادی کے ادارے کی اہمیت کو تھوڑا بہت کم کر سکتا ہے اور اس امکان سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ فلمی دنیا کے مقلدین شوقیہ اس کی طرف نہ بڑھنے لگیں۔ بہرحال تمام اندیشے اور امکان اپنی جگہ لیکن اس پر شروع ہوئی بحث یقینا ہمیں کسی نتیجہ تک پہنچنے میں مدد کرے گی۔