پچھلے ہفتے لاہور کی آبادی اقبال ٹاؤن میں ایک خاتون نے اپنی گھریلو ملازمہ کو مبینہ طور پر قتل کر کے اس کی لاش گندے نالے میں پھینک دی۔ ایک نجی ٹی وی کے انوسٹیگیٹو رپورٹر نے اس سانحے کو مہم میں بدلنے کی کوشش کی لیکن ایک ہفتے کے اندر اندر ہی معاملہ سرد پڑ گیا۔
بچی کی عمر اس کے باپ کے بقول 15، 16 سال تھی۔ محلے کی خواتین نے اس پر مبینہ تشدد کا ذکر کیا، جسے علاقے کے ایس ایچ او نے بیک جنبشِ سر مسترد کر دیا۔ عظمیٰ کی موت سے ایک روز قبل کی مبینہ ویڈیو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک مدت سے ذہنی اور جسمانی تشدد کا شکار تھی، جس کے باعث اس کا ذہنی توازن بھی درست نہیں لگ رہا۔
عظمیٰ کی مبینہ قاتلہ کا کہنا ہے کہ اس نے بیٹی کی پلیٹ میں سے قیمہ چکھا تھا اور کھانا جھوٹا کر دیا تھا اس لیے میں نے دودھ کے پوے سے اس کے سر پر ضرب لگائی جس سے وہ پہلے بے ہوش ہوئی پھر دوا دینے سے ٹھیک ہو گئی۔ رپورٹر کے مطابق اسے گھر میں بجلی کے جھٹکے دے کر ہوش میں لایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
کھانا چکھنے پر بچوں کو جان سے مارنے والے کون؟
استحصال کی کہانیاں، کم سن ملازماؤں پر تشدد
’رضیہ کے والدین کو بھی صلح کرنی پڑی‘
طیبہ ڈھیٹ تھی، بچ گئی۔ عظمیٰ نہیں بچ پائی۔ کچھ روز میں سب بھول جائیں گے۔ بہت ہو گا تو چائلڈ لیبر کے لیے دو ایک دھانسو مضمون لکھ لیے جائیں گے، کچھ سیمینار، چند واکس اور مظاہرے، مسئلے کا دائمی حل کیا ہے؟
پاکستان کی مڈل کلاس ایک ایسا طبقہ ہے جو امرا کی طرح مہنگے ملازم رکھنے کی پسلی نہیں رکھتے لیکن چونکہ معاشرے میں ملازمین کا چلن بے تحاشا بڑھ چکا ہے اس لیے بچت کی یہ ترکیب نکالی جاتی ہے کہ چھوٹے بچوں کو کم پیسوں پر گھر میں رکھ لیا جاتا ہے۔ ماں باپ کو یہ لالچ ہوتا ہے کہ سارا دن گلیوں میں رلنے اور جرائم پیشہ لوگوں کے ہتھے چڑھنے کی بجائے یہ بچے کسی امیر گھر میں رہیں گے۔
کام کاج کا یہ ہے کہ یہ بچے اپنے گھروں میں سب طرح کا کام کرتے ہیں۔ ایک سات آٹھ سال کی بچی، برتن بھی دھو لیتی ہے، آٹا بھی گوندھ لیتی ہے اور چھوٹے بہن یا بھائی کو سارا دن گود میں بھی سوار رکھتی ہے۔ یہ بچے یہ ہی کام اگر کسی اور کے گھر میں کرتے ہیں اور اس کے بدلے ماں باپ کو پانچ چھ ہزار مہینہ بھی مل جاتا ہے، پرانا کپڑا لتا اور علاج معالجے کو زکوۃ کے پیسے بھی تو کیا مضائقہ ہے؟
اکثر اوقات یہ انتظام بہت اچھا چلتا ہے۔ بچے، گھروں میں محفوظ رہتے ہیں، انھیں اچھا کھانے پہننے کو ملتا ہے، اچھی تربیت اور کئی لوگ انھیں پڑھا لکھا بھی دیتے ہیں۔ اس طرح وہ بچے جو جھونپڑیوں اور غریب آبادیوں میں رہ کر بیماریوں اور سماجی برائیوں کا شکار ہو سکتے تھے، معاشرے کے فعال رکن بن جاتے ہیں۔
مگر سب بچے خوش نصیب نہیں ہوتے۔ کچھ بچے ایسے گھروں میں چلے جاتے ہیں جہاں خاتونِ خانہ یا گھر کا کوئی فرد بد فطرت ہوتا ہے۔ ایسے بچے بہت برے حادثات کا شکار ہوتے ہیں۔ عظمیٰ کی عمر اگر 15 سال مان لی جائے تو یہ کیس چائلڈ لیبر کا معاملہ نہیں رہتا لیکن کیا صرف اس بنا پہ اس سانحے کو فراموش کیا جا سکتا ہے؟
یہ بچے جو اپنی رضا کے بغیر ایک ایسی دنیا میں آ گئے جہاں ان کے لیے بنیادی ضروریات بھی موجود نہیں ان کا مقدمہ کون لڑے گا؟ چائلڈ لیبر پر پابندی لگا دینے سے کیا ان کی صحت، خوراک اور تربیت کے مسائل حل ہو جائیں گے؟ عظمیٰ اور طیبہ جیسے واقعات کو لاکھوں میں ایک قرار دے کے صورت حال کو جوں کا توں برقرار رکھنے سے کیا ہم رات کو سکون کی نیند سو سکیں گے؟
یہ بھوکے ننگے، مفلوک الحال بچے، جو زندہ رہنے کے جرم میں مارے جارہے ہیں، ان کے مسائل پر اپنے سماجی ڈھانچے کے اندر رہتے ہوئے، زمینی حقائق کی روشنی میں حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ حل کمیونٹی کی سطح پر بھی ڈھونڈے جا سکتے ہیں اور سرکاری طور پر بھی۔ بات تو تلخ ہے لیکن ایک سچائی یہ بھی ہے کہ ان کے مسائل کا حل اتنا آسان نہیں۔ سماجی ڈھانچے کی صدیوں کی شکست و ریخت کے بعد، آج ہمارے سامنے شہری غربت کی جو شکل دانت نکوسے کھڑی ہے وہ اتنی بھیانک ہے کہ اس سے نظریں چرانے کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں آتا۔
ان مسائل کے حل کے لیے ایک مکمل نیا سماجی ڈھانچہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے بات تصویریں کھنچوانے اور فیتے کاٹنے سے کہیں آ گے جا چکی ہے، جاگیے اور سوچیئے، اگرعظمیٰ آپ کی بیٹی ہوتی تو کیا ہوتا؟