آج تو بارش کا زور ٹوٹنے میں ہی نہیں آ رہا تھا، سرد ہواؤں کی نئی لہر سے سردی کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہو چکاتھا۔ ٹاٹ کے پیوند لگانے کے باوجود بارش کا برفیلہ پانی، سرد ہواؤں سمیت شیدے کی جھونپڑی میں گھسا جا رہا تھا۔ دھند میں لپٹے سورج سے عاری دن میں ظہر کی نماز ہوئے بھی کافی وقت گزر چکا تھا۔ محلے کی جامع مسجد میں حاجی لیاقت کی والدہ کا چہلم ہو رہا تھا، حاجی صاحب اپنی سخاوت کے باعث پورے علاقے میں مشہور تھے اور آج محلے کے غریب بڑی آ س لگائے بیٹھے تھے کہ آج تو ضرور کچھ اچھا کھانے کو ملے گا۔ شیدے نے اپنے آٹھ سال کے، آدھی پھٹی قمیض پہنے، بیٹے شمس القمر (پتہ نہیں یہ نام رکھنے کی کون سی وجہ تھی مگر شمس اور قمر دونوں ہی شیدے کے بیٹے کا یہ حال دیکھ کر شرماتے ضرور ہوں گے ) کو ٹانگ مارتے ہوئے کہا کر جا کرمسجد کے باہر کھڑا ہو جائے اور ختم کی کم از کم ایک پلیٹ بریانی تو ضرور لے کر آئے۔
شمس برستی بارش میں جھونپڑی سے نکلا اور سردی سے کاپنتی ٹانگوں کو گھسیٹتا ہوامسجدمیں کالے رنگ کا پیالہ لے کرداخل ہو گیا۔ مسجد ’متقین‘ سے بھری پڑی تھی (حاجی لیاقت سیاسی اثر و رسوخ بھی بہت رکھتے تھے ) ۔ اللہ کا گھر کیا تھا شفاف پتھروں مُزین ایک انتہائی خوبصورت عمارت تھی۔ صحن دبیز کارپٹ سے ڈھکا ہوا تھا اور اس پر پاؤں رکھنے سے شمس کو محسوس ہوا کہ شاید وہ ہوا میں اڑ رہا ہو۔ اس کے میلے پاؤں اللہ کے گھر کے شفاف کارپٹ پر نشان چھوڑ رہے تھے۔
شمس دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا کہ نہ صرف آج اللہ کے گھر سے کھانے کو ملے گا بلکہ کچھ دیر نرم کارپٹ پے بیٹھنے کا مزہ بھی لیا جا سکے گا۔ اچانک ایک چٹاخ کی آواز کے ساتھ شمس کو دن میں تارے نظر آنے کا مفہوم سمجھ میں آ گیا اور نیلی پیلی سی چنگاریاں اس کی آنکھوں کے آگے ناچنے لگیں۔ تھوڑا حواس بحال ہونے پر شمس کو ایک بھاری بھرکم مولوی صاحب نظر آنا شروع ہوئے جو اس پر جھکے اسے کارپٹ پر پڑے نشان دکھا کر نجانے کون سی زبان میں اللہ کے گھر کو گندہ کرنے پر نہ صرف کوس رہے تھے بلکہ دوزخ میں ہمیشہ کے لیے جلنے کا سندیس بھی دے رہے تھے۔ باقی ’متقین‘ بھی شمس کی اس گستاخی پر لال بھبھوکا ہوئے جا رہے تھے۔ ان کی بھی یہی کوشش تھی کی شمس کے گندے پاؤں ان کے پاک اور اجلے کپڑوں سے دور ہی رہیں۔
شمس کے منہ میں خون اور آنسووں کا ملا جُلا ذائقہ گھُلتا جا رہا تھا۔ بھوکے پیٹ اپنے ہی خون کا ذائقہ چکھتے شمس نے محسوس کیا کہ کوئی اُسے اللہ کے گھر کے باہر بُلا رہا ہے۔ غور کرنے پر ظاہر ہو ا کہ یہ تو عیسیٰ علیہ السلام کھڑے ہیں اور یاد کروا رہے ہیں ’پھر جب یسوع نے دیکھا کہ کچھ شاگردبچوں کو ان کے پاس لانے سے منع کر رہے ہیں تو وہ خفا ہو کر کہنے لگے، بچوں کو میرے پاس آنے دو، اور انہیں منع مت کرو کیونکہ خدا کی بادشاہی ایسوں ہی کی ہے‘ (مرقس 31۔24 ) ۔
جان بلب شمس کی نظر ان سے پرے پڑی تو آقا نامدار محمدﷺ کی آواز آئی کہ ’اے ابنِ آدم، غریبوں سے حسنِ سلوک کیا کرو اور ان پر خرچ کیا کرو‘ (صحیح بخاری، جلد 7، حدیث 462 ) ۔ یہ فرمان ابھی جاری تھے کہ مولا علی ؑ تشریف لائے اور مرتے ہوئے شمس کو گود میں اٹھایا اور آسمانوں کی طرف پرواز سے پہلے شمس نے آخری بار اللہ کے گھر کی چوکھٹ سے لگے اپنے جیسے کئی شمس دیکھے جو بھوکے ننگے جسموں کے ساتھ کسی کھانے کی آس میں کھڑے تھے مگر اللہ کی ان رحمتوں کو مسجد میں داخلے کی اجازت نہیں تھی، اندر حاجی لیاقت کی والدہ کا چہلم ہو رہا تھا اور ’متقین‘ اجلے کپڑوں میں تشریف فرما تھے۔