مرد کو ساری زندگی عورت کی ہی ضرورت پڑتی ہے، چاہے وہ کس روپ میں بھی ہو۔ عورت کا ہر روپ اس کی لئے بے مثال اور بے لوث ہے۔ کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ، مرد شاندار عمارت تو بنا سکتا ہے، لیکن اسے گھر ایک عورت ہی آکر بناتی ہے۔
جب ایک بچہ جنم لیتا ہے تو اس کو صرف اور صرف ماں کی ضرورت پڑتی ہے، (جو ایک عورت ہی ہے ) ۔ باپ بھلے کام کاج کے سلسلے میں کہیں دور چلا جائے تو بھی پرواہ نہیں، پر ماں سے چھوٹا بچہ ایک لمحہ بھی دور نہیں رہہ پاتا۔ اس نونہال بچے کو ساری دنیا میں صرف ایک ماں سے ہی زیادہ پیار ہوتا ہے، اور اگر وہ دو منٹ بھی کہیں گم ہوجائے، بچہ سسک سسک کے رونے لگتا ہے اور کسی اور قریبی رشتیدار کے پاس چپ نہیں ہوتا، جب تک اسے ماں کی گود نہ مل جائے۔
بچیوں کو تو خیر بڑا ہو کہ ایک ماں کا ہی روپ لینا ہوتا ہے، پر جو مرد حضرات عورت کے ہر روپ کو کوستے ہیں، ان پہ ظلم و تشدد کرتے ہیں، ان کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے ہیں، چہرا بگاڑنے کے لیے تیزاب پھینکتے ہیں، انہیں ہراساں کرتے ہیں، بلیک میل کرتے ہیں، وہ شاید یہ نہیں سمجھ پاتے کہ جن خواتین کا مرد، ہر عمر میں محتاج ہوتا ہے، اسے قدر کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے، آخر کیوں ہم اسے نیچا دکھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔
مرد کے پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک اسے صرف اور صرف ایک عورت ہی سنبھالتی ہے۔ جب لڑکا پیدا ہوتا ہے، تو اسے ماں کے روپ میں ایک عورت کی ہی ضرورت ہوتی ہے، وہی عورت جس کو وہ جوان ہوکے چھیڑتا ہے، اس کے ساتھ بدسلوکی کرتا ہے۔ دودھ پلانے سے لے کر، نہلانا، دیکھ بھال کرنا، پرورش کرنا، اس کا گرمی سردی میں خیال رکھنا، راتوں کو اٹھ اٹھ کے اس کی پیشاب والی چھڈیاں تبدیل کرنا، یہ سب ایک ماں ہی تو کرتی ہے۔ کہاں باپ بچوں کو نہلاتے ہیں، یا ان کی سارا دن دیکھ بھال کرتے ہیں۔
جب وہ لڑکا بڑا ہوجائے تو، بہنوں کی روپ میں عورتیں ہی ہوتی ہیں، جو اس کے لیے دن رات دعائیں مانگتی ہیں، اپنے حصے کی جیب خرچی ہو یا، اپنے کھلونے ہوں، وہ اپنے بھائیوں کو دینے میں دیر نہیں لگاتیں۔ بہنیں اپنے بھائی کی شادی کی بڑی منتیں مرادیں مانگتی ہیں، اور جب شادی ہوتی ہے تو خود بھنگڑے ڈالتی ہیں اور گھر میں رونق کر دیتی ہیں۔ کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ، جن بھائیوں کی بہنیں نہیں ہوتیں، ان کی شادیاں بے رونق ہوتی ہیں۔
صرف یہ ہی نہیں، بہنیں کپڑے دھونے سے لے کر بھائیوں کی پسندیدہ کھانے بنانے تک کے سب کام بڑی خوشی سے کرتی ہیں۔ اور جب مرد کی شادی ہوتے ہے تو بھی اسے بیوی کے روپ میں ایک عورت ہی ملتی ہے، جو اس کی سب ضروریات کو پورا کرتی ہے، اس کے ہر کام کاج کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے۔ اپنے شوہر کو مزاجی خدا تسلیم کرکے دن رات اس کی خدمت کرتی ہے، اس کے ہر بڑی سے بڑی اور چھوٹی سے چھوٹی خواہش کی تکمیل کرنا خود پہ فرض سمجھتی ہے۔
جو مرد بیویوں پہ تشدد کرتے ہیں، ان کو نوکرانی سمجھتے ہیں، وہی عورت دو دن کے لیے اپنے ماں کے گھر چلی جائے تو، مرد ایک دن بھی گھر سنبھال نہیں پاتا، بلکہ اسے تو پتا بھی نہیں ہوتا کہ کون سی چیز کس جگہ پہ رکھی ہے۔ وہی بیوی اس کے بچے کو اپنے پیٹ میں نو ماہ پال کے اس کی نسل بڑھاتی ہے، اس کو اولاد کا سکھ دیتی ہے۔ کیونکہ صرف ایک عورت ہی مرد کو اولاد کا سکھ عطا کر سکتی ہے۔ اور جو مرد حضرات نوجوان لڑکیوں کو تنگ کرتے رہتے ہیں، ان کے گھر بھی بیٹی کی روپ میں ایک عورت ہی تو جنم لیتی ہے، اور وہ گھر اور اپنے والدین کے لیے رحمت بن کے آتی ہے۔
والدین کی بخشش کا سامان بن کے، اپنے والدین سے بے پناھ محبت اور ان کی حد سے زیادہ فکر کرنے والی اس عورت کے باری میں کیا الفاظ بیان کیے جائیں، جو کہ ایک بیٹی ہے۔ بیٹوں کو والدین کی اتنی فکر نہیں ہوتی، پر بیٹی ہر وقت اپنے باپ کے لیے فکرمند رہتی ہے۔ پئسوں کی تنگی ہو یا کوئی بیماری ہو، چاہے جو بھی اسباب ہوں پر ایک بیٹی سے یہ قطئے طور پہ برداشت نہیں ہوتا کہ، اس کا باپ پریشان ہو۔ بیٹی ہر وقت اپنے والدین کے لیے فکرمند رہتی ہے، اور بھلے کتنی بھی پڑھائی میں مصروف ہو یا اسے پڑھنے کا حق بھی نہ دیا جائے، لیکن وہ ہر وقت بنا شکایت کیے، والدین کی خدمت کرتی رہتی ہے۔ شادی ہوجانے کے بعد بھی اپنے باپ کے لیے ہر دم دعاگو رہتی ہے۔ حدیث رسولﷺ کے مطابق، ”جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے“، اور ذرا سوچئے، ماں کون ہے، وہ بھی ایک عورت ہی ہے۔
جس عورت کی ضرورت مرد کو پیدا ہونے سے لے کر مرنے اور مر جانے کے بعد بھی پڑتی ہے، پھر اسی عورت پہ جبر کرتے ہوئے کیوں آخر مرد حضرات ہچکچاتے بھی نہیں ہیں؟ جس جگہ بھی وہ جس عورت کے ساتھ نا انصافی کر رہے ہیں، وہ بھلے ان کی ماں، بہن، بیٹی نہ ہو، پر ہے تو وہ ایک عورت ہی۔ وہ آخر کسی کی تو بیٹی بھی ہوگی، اور کسی کی بہن بھی ہوگی۔ اگر ہماری بہن کو کوئی برے نظر سے دیکھے تو بھی، ہمارا خون خول اٹھتا ہے کہ ابھی اسے مار ڈالیں۔
تو کیا دوسروں کا دل ایسا نہیں کرتا ہوگا؟ جب عورت کی ضرورت آپ کو ہر عمر میں ہے تو، کیوں اس کی توہین کرتے ہو، خدارا اب اس جاہل سوچ کی پیروی کرنا چھوڑو۔ اپنی اور پرائی سب عورتوں کی عزت کرو، کیونکہ سب مردوں کو جنم سے لے کر مرجانے تک، اور مرنے کے بعد بھی عورت کے کسی نہ کسی روپ کی محتاجی ہے، اور یہ کوئی افسانہ یا من گھڑت کہانی نہیں، حقیقت ہے۔