ممبئی کے ایک قانون دان جوڑے کے ستائیس سالہ صاحبزادے رافیل سیموئل نے مرضی کے بغیر اپنی پیدائش پر والدین کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس پر مجھے دو ہزار گیارہ میں ریلیز ہونے والی پاکستانی فلم بول یاد آ گئی جس میں باپ کو قتل کرنے والی لڑکی آخری بیان دیتی ہے
’’میں نے اپنے باپ سے اپنی پیدائش کا بدلہ لیا۔ میرے باپ نے آٹھ بچے پیدا نہیں کیے بلکہ آٹھ بچے مارے تھے۔ میں اپنے پیچھے ایک سوال چھوڑ کے جانا چاہتی ہوں۔ صرف مارنا ہی کیوں جرم ہے ، پیدا کرنا کیوں نہیں ؟ حرام کا بچہ پیدا کرنا ہی جرم کیوں ہے ؟ جائز بچے پیدا کر کے ان کی زندگیاں حرام کر دینا جرم کیوں نہیں ؟ لوگوں کو سمجھائیں کہ اور بھک منگے پیدا نہیں کرو۔ روتی صورتیں اور بسورتی زندگیاں پہلے ہی بہت ہیں۔ جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو ؟ ‘‘۔
رافیل کا کہنا ہے کہ مجھے ہوش سنبھالتے ہی اس سوال کے جواب کی تلاش تھی کہ مجھے کیوں پیدا کیا گیا؟ جب زبردستی اسکول میں داخل کروایا گیا تب سے میرے ذہن میں یہ سوال ہے۔ پھر جب میں نے اپنے اردگرد بے شمار لوگوں کو مصائب میں مبتلا اور زندگی اور ناکردہ گناہوں سے لڑتے دیکھا تب تو میرے دماغ میں یہ بات گڑ کے رہ گئی کہ اگر پیدائش کے بعد زندگی صرف اسی کا نام ہے تو پھر کسی کو کیا حق ہے کہ کسی کو اس کی مرضی کے خلاف پیدا کر کے اس سے کہے کہ اب یہ کرو وہ نہ کرو اور پیدا ہو ہی گئے ہو تو اپنا اور دوسروں کا بوجھ اٹھاؤ۔ آج آپ ان کاموں کے لیے اگر مصنوعی ذہانت سے لیس روبوٹ بنا سکتے ہیں کہ جو انسانوں کا روزگار چھین رہے ہیں تو پھر مزید انسانوں کو پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟
رافیل نے جو سوالات اٹھائے ہیں انھیں آپ چاہیں تو دماغی خلل قرار دے کر سرسری مسترد کر سکتے ہیں یا پھر کسی حتمی نتیجے پر نہ پہنچنے کے باوجود سنجیدگی سے غور کر سکتے ہیں۔ ہر انسان کی زندگی میں ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جب وہ سوچتا ہے کہ اسے اس دنیا میں کیوں لایا گیا ہے ؟ اس کی پیدائش کا مقصد کیا ہے ؟ بقول غالب
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے ، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
یا پھر عبید اللہ علیم کے بقول
تھا دکھ اپنی پیدائش کا جو لذت میں انزال ہوا
مذاہب کہتے ہیں کہ انسان کو خدا کے نائب کا درجہ حاصل ہے ، وہ اشرف المخلوقات ہے ، اسے کوئی خاص کام لینے کے لیے پیدا کیا گیا ۔ اسے تمام بے زبانوں پر حاکم بنایا گیا ، کیونکہ اس کے پاس عقل ہے اور عقل خدا کی امانت ہے کہ جسے احتیاط سے ہر چرند پرند اور ذی روح کی فلاح کے لیے خیانت کا خوف کھاتے ہوئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
سائنس کہتی ہے انسان بھی دیگر جانداروں کی طرح قدرت کے ارتقائی کھیل کا تسلسلی حصہ ہے۔ زندگی طرح طرح کی شکل ، قسم اور نسل میں تبدیل ہوئی، زندگی کی کچھ شکلیں ارتقا کی ابتدائی شکل سے آگے نہ بڑھ پائیں اور کچھ باقیوں سے آگے نکل گئیں اور انسان بھی انھی آگے نکل جانے والی حیاتیاتی اقسام و اشکال میں سے ایک ترقی یافتہ شکل ہے۔
سائنسی و نظریاتی تاویلات اپنی جگہ مگر اس سوال کا واقعی کوئی ہمہ گیر جواب نہیں کہ ہم کیوں پیدا ہوئے اور ہمارے نہ ہونے سے آخر کسے کیا فرق پڑتا ؟ ہاں اس سوال کا جواب شائد مل سکتا اگر تمام انسانوں کو تمام وسائلِ ارضی تک مساوی دسترس حاصل ہوتی ، محنت کا صلہ مساوی ہوتا، اجتماعی ترقی کے ثمرات میں ہر کوئی حصے دار ہوتا،طاقتور کمزور کو کچلنے کے بجائے ایثار کا مظاہرہ کرتا ،چھیننے کے بجائے بانٹنے کا چلن ہوتا۔
تب ہم کیسے کہہ سکتے کہ ہم میں اور جانوروں میں یہ فرق ظاہر کرنے کے لیے پیدا کیا گیا کہ ہم اپنی عقل سے اپنی اور دیگر حیاتیات کی محفوظ بقا کو ممکن بنا سکیں۔ اور یہ کہ ہم کم ازکم سوچ سکتے ہیں کہ ہم کہاں سے آئے اور کیوں آئے اور اس کے جواب کی کھوج نے ہمیں جانے کیا کیا کھوجنے اور ایجاد کرنے پر مجبور کر دیا۔ گویا یہی دو تین بنیادی سوالات تہذیبی ارتقا کے قفل کی کنجی بھی ہیں۔
مجھے کیوں پیدا کیا گیا؟ یہ سوال یا تو کسی فلسفیانہ دماغ میں آ سکتا ہے یا پھر کسی ذہین محروم کی کھوپڑی میں۔ پچھلے آٹھ ہزار برس کی معلوم تاریخ کھوجیں تو انکشاف ہوتاہے کہ یہ دنیا انھوں نے بنائی جن کی بنیادی ضرورت نے جستجو کو ہتھیار بنایا۔ اسی لیے کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔
شکاری نے جب اتفاقاً گندم اور چاول دریافت کر لیا تو آوارہ گردی چھوڑ کر زراعت اختیار کر کے پانی کے کنارے بسنا شروع کر دیا۔ اضافی فصل ہوئی اور پیٹ بھرنے لگا تونئے پیشوں کی جانب دماغ جانے لگا۔ ہل ، لوہے کا استعمال ، مٹی کا استعمال ، تعمیر کی خواہش و ٹیکنالوجی۔ گویا تہذیب کی دیوار کشت در کشت اٹھنے لگی۔ پھر یہ سوچ در آئی کہ میں نے یا ہم نے جو اتنی محنت سے یہ سب بنایا ہے وہ کسی قدرتی آفت کی لپیٹ میں نہ آجائے یا کسی غیر کی بد نظر نہ لگ جائے۔ چنانچہ قبیلہ،برادری،خطہ، باؤنڈری، ریاست ، فوج وجود میں آتے چلے گئے۔
مگر اس سب بکھیڑے کے سبب کیا انسان بحیثیتِ مجموعی زیادہ محفوظ یا ہمدرد ہوتا چلا گیا یا اس میں زیادہ بیگانگی ، خود غرضی ، لالچ ، دوسرے کو دبانے اور گردن پر پاؤں رکھ کے آگے بڑھ جانے کا جذبہ اور بڑھ گیا ؟
بھارت میں کسان فاقے اور قرض کے بوجھ سے خودکشی کر رہا ہے اور جاپانی نوجوان اس لیے خود کشی کر رہا ہے کہ زندگی میں کرنے کو نیا کچھ نہیں اور امریکا میں کوئی تنہائی کا مریض بندوق اٹھا کر کسی اسکول میں گھس کر بیسیوں معصوم بچوں کو اس لیے ہلاک کر دیتا ہے کہ اس کی سمجھ میں ہی نہیں آ رہا کہ وہ اور کیا کرے ؟
گویا زندگی سے مقصد نکل جائے یا جو مقصد آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس کی راہ میں قدرتی کے بجائے مصنوعی رکاوٹیں کھڑی ہو جائیں تب ذہن میں آتا ہے کہ مجھے کیا سوچ کے پیدا کیا گیا ؟
پسِ پردہ بھی کچھ نہیں موجود
پردہ داری ہی پردہ داری ہے
) عبدالحمید عدم(
وہ خلا ہے کہ سوچتا ہوں میں
اس سے کیا گفتگو ہو خلوت میں
) جون ایلیا (
بشکریہ: روز نامہ ایکسپریس