ذوالفقار خان
سعادت حسن منٹو کے بارے میں جب بات شروع ھوتی ہے، تو بہت دور تک بلکہ کافی دور تک جاتی ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ ان بڑی بڑی باتوں کے درمیان اس چھوٹی سی بات کا تذکرہ رہ جائے جس کا تذکرہ یہاں مطلوب ہے، جس کی ابتدا آل انڈیا ریڈیو سے شروع ھوتی ہے۔ آل انڈیا ریڈیو جہاں سے منٹو کی کی کامیابی کا آغاز ھوا تھا۔
تقسیم سے قبل اس ریڈیو اسٹیشن پر ادیبوں اور شاعروں کی ایک پوری کہکشاں روشن رہتی تھی، جس میں دیگر ستاروں کے ساتھ ساتھ سعادت حسن منٹو بھی شامل تہے۔ وہ منٹو کے اچھے دن تہے، اس زمانے میں آل انڈیا ریڈیو کی عمارت میں سعادت حسن منٹو کا اپنا ایک الگ دفتر ھوا کرتا تھا، جہاں وہ اپنے افسانے اردو کے ایک ٹائپ رائٹر پر لکھا کرتے تھے اور افسانہ مکمل ہوتے ہی کھرر کی آواز کے ساتھ آخری کاغذ کھنچ کر نکالتے اور اپنے دوست اویندر ناتھ اشک کو چلا کر کہتے کہ “لو بھئی اشک تم اشک بہاو اور چاہو تو ن م راشد کو بھی بتاؤ کہ یاروں کا ایک اور افسانہ مکمل ہو گیا ہے۔ جب منٹو دھلی سے بمبئی گئے تو ان کا وہ ٹائپ رائٹر بھی انکے ہمراہ گیا- بمبئی میں بھی اپنے زیادہ تر افسانے اور فلمی کہانیاں منٹو نے اسی ٹائپ رائٹر سے لکہیں، جب بمبئی ان سے چھوٹ گئی ھندوستان ان سے چھوٹ گیا تب بھی ان کا وہ دیرینہ رفیق وہ ٹائپ رائٹر ان کے ساتھ رہا، یہ ٹائپ رائٹر آخری وقت تک منٹو کے ساتھ رہا۔ کہتے ہیں کہ منٹو کے انتقال کے بعد جب ان کا سامان ان کی بیگم صفیہ نے زندہ رہنے کی جستجو میں بیچنا شروع کیا تو منٹو آل انڈیا ریڈیو کے ساتھی اور ممتاز شاعر ن م راشد نے منٹو کی بیگم سے خرید لیا۔ پھر جب ن م راشد کا انتقال ہوا تو مشہور شاعر ساقی فاروقی نے اس ٹائپ رائٹر کو بیگم شہلا راشد سے حاصل کر لیا اور اس کو گورنمٹ کالج لاھور کو عطیہ کر دیا تاکہ اگلی نسلیں اس تہذیبی اور ثقافتی ورثے کا دیدار کر سکیں جس پر منٹو نے ناجانے کتنے شاہکار افسانے لکھے، کئی برسوں تک آل انڈیا ریڈیو کا وہ ٹائپ رائٹر گورنمنٹ کالج لاھور میں ایک شو کیس میں سجا دعوت فکر و نظر دیتا رہا، پھر وہ ٹائپ رائٹر کہاں گیا، کسی کو نہیں معلوم۔
جب منٹو دھلی میں آل انڈیا ریڈیو کے سرکاری کوارٹر میں رہا کرتے تھے، اس زمانے میں راجہ مہدی علی خاں اکثر ان کے مہمان ہوا کرتے تھے پھر منٹو جب بمبئی گئے تو انہوں نے کئی فلمسازوں سے راجہ مہدی علی خاں کا تعارف کروایا اور پھر اپنی لگاتار محنت سے راجہ مہدی علی خاں فلمی دنیا کا ایک جانا پہچانا نام بن گیا۔ منٹو کی بے وقت موت نے راجہ مہدی علی خاں کو بہت متاثر کیا۔ منٹو کی موت پر انہوں نے ایک نظم لکھی جسکا عنوان تھا “جنت سے منٹو کا خط” جو جنت سے منٹو نے راجہ مہدی علی خان کو لکھا ہے، خط میں منٹو پوچھتے ہیں ک
میں خیریت سے ہوں لیکن کہو کیسے ہو تم “راجہ”
بہت دن کیوں رہے تُم “فلم کی دنیا” میں گم “راجہ”
یہ دنیائے ادب سے کیوں کیا تم نے کنارا تھا
ارے اے بے ادب کیا “شعر” سے “زر” تم کو پیارا تھا
جو نظمیں تم نے لکھی تھیں کبھی جنت کے بارے میں
چھپی تھیں وہ یہاں بھی “خلد” کے پہلے شمارے میں
ادب کی شعر کی دنیا میں تم لوٹ آئے اچھا ہے
ارے لکھوا لو نظمیں! پھر سے تم چلّائے اچھا ہے
مگر پھر سوچتا ہوں شعر لکھ کر کیا کرو گے تم؟
یہ اندازہ ہے میرا غالباً بھوکے مرو گے تم
یہ بہتر ہے کسی اچھی سی “مِل” میں نوکری کر لو
کرو تم شاعری تفریح کو اور پیٹ یوں بھر لو
یہ وہ دنیا ہے جس نے “کیس” چلوائے ادیبوں پر
بہت کی بارشِ مشقِ ستم ہم خوش نصیبوں پر
ہوا پیدا یہاں جو نکتہ داں صدیوں میں سالوں میں
مرا سڑکوں پہ وہ یا سڑ گیا پھر ہسپتالوں میں
ہوں زندہ ہم تو ناک اور بھوں چڑھا کر نام دھرتے ہیں
جو مر جائیں تو پھر دیکھو یہ کتنی قدر کرتے ہیں
یکایک ایک دن روئیں گے یہ برسی منا لیں گے
یہ غازی ہم شہیدوں کے لیے جھنڈے اٹھا لیں گے
پڑھیں گے مرثیے تڑپیں گے کر ڈالیں گے تقریریں
ہمارا نام کرنے کی کریں گے لاکھ تدبیریں
ہمارے بال بچوں سے نہ پوچھیں گے کہ کیسے ہو
ادیبوں شاعروں کی قدر دانی ہو تو ایسے ہو
کریں کیا ہم نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا ادیبوں کی
یہ دنیا ہے سزاؤں کی، وہ دنیا ہے خطیبوں کی
زمیں والے ہوں کیسے بھی وہ ہر دم یاد آتے ہیں
جو دنیا میں اٹھائے وہ حسیں غم یاد آتے ہیں
زمیں والوں کی صحبت میں کبھی جو دن گذارے تھے
قلم لکھنے سے قاصر ہے کہ وہ دن کتنے پیارے تھے
وہ گلیاں بائیکلہ٭ کی دور سے مجھ کو بلاتی ہیں
وہاں کے گھر کی یادیں دل میں اب تک گنگناتی ہیں
مجھے اس گھر میں صفیہ٭ کی محبت یاد آتی ہے
مجھے جنت میں بھی وہ گھر کی جنت یاد آتی ہے
جہاں بچوں کی صورت دیکھ کر میں مسکراتا تھا
جہاں آ کر میں دنیا کا ہر اِک غم بھول جاتا تھا
بلا ناغہ جہاں ہر شام تم ملنے کو آتے تھے
جہاں سب دوست آ کر اِک نئی جنت بساتے تھے
وہ جنّت لٹ چکی دل میں مگر آباد ہے اب تک
فضا اُس گھر کی وقفِ ماتم و فریاد ہے اب تک
تم اکثر اب بھی اُس گھر کی سڑک پر سے گذرتے ہو
وہ سب کچھ لُٹ چکا بیکار تم کیوں آہیں بھرتے ہو؟
یہی اجڑا ہوا گھر پھر بسانا چاہتا ہوں میں
بلندی چھوڑ کر پستی پہ آنا چاہتا ہوں میں
فلک پر میں ہوں اور تم ہوں زمیں پر جی نہیں لگتا
جہاں بھی جاؤں جنت میں کہیں پر جی نہیں لگتا
میں چاہوں بھی تو اب دنیا میں واپس آ نہیں سکتا
خوشی بن کر تمہاری محفلوں میں چھا نہیں سکتا
زمیں والوں سے اے ملعون کب توڑو گے تُم ناتے؟
بآسانی تم آ سکتے ہو ظالم، کیوں نہیں آتے؟
فلک سے روز میں آواز دیتا ہوں تمہیں راجا
تمہیں معلوم ہے “راجا” کا ہے اِک قافیہ “آ جا”
زمیں سے بوریا بستر اٹھاؤ اور چلے آؤ
مرے گھر آؤ میرا بیل بجاؤ اور چلے آؤ
کروڑوں مر گئے چپ چاپ لیکن تم نہیں مرتے
جو مردِ نیک ہیں جینے پہ اتنی ضد نہیں کرتے
اگر کچھ عمر باقی ہے تو کر کے خودکشی آؤ
میں ہوں جب تک یہاں خوفِ جہنّم سے نہ گھبراؤ
میں جرمِ خودکشی کو لڑ جھگڑ کے بخشوا لوں گا
تمہارا نام ہر جنت کے پرچے میں اچھالوں گا
چلے آؤ، چلے آؤ مجہے تم سے محبت ہے
چلے آؤ، چلے آؤ یہاں راحت ہی راحت ہے
نہیں میں خود غرض سن لو تمہیں میں کیوں بلاتا ہوں
مرے راجا تمہیں میں ایک خوش خبری سناتا ہوں
خبر یہ گرم تھی کچھ دن سے جنّت کے حسینوں میں
تمہارا نام بھی شامل ہے جنّت کے مکینوں میں
یہ سن کر میں نئی آبادیوں میں دوڑتا آیا
جو کی انکوائری تو اس خبر کو میں نے سچ پایا
تمہارا محل بھی دیکھا بہت ہی خوبصورت ہے
یہ سمجھو جگمگاتے نور اور چینی کی مورت ہے
تمہاری منتظر حوریں وہاں بے خواب رہتی ہیں
چمن کی عندلیبوں کی طرح بے تاب رہتی ہیں
وہ مجھ سے پوچھتی رہتی ہیں بتلاؤ وہ کیسے ہیں
فرشتے ہیں کہ شیطاں ہیں، وہ ایسے ہیں کہ ویسے ہیں
تمہاری جھوٹی تعریفوں کے پُل میں باندھ دیتا ہوں
خدا سے بعد میں رو رو معافی مانگ لیتا ہوں
جواں حوریں کہیں بوڑھی نہ ہو جائیں چلے آؤ
یہ جنگل میں محبت کے نہ کھو جائیں چلے آؤ
انہیں چھپ چھپ کے اک کم بخت ملّا گھورا کرتا ہے
بچا لو اِن کو اے راجا کہ وہ ان سب پہ مرتا ہے
یہ چنچل ہرنیاں تکتے ہی اس کو بھاگ جاتی ہیں
مری حوروں کو آ کر حال اپنا سب بتاتی ہیں
بہت جو یاد آتے ہیں اب ان کے نام لیتا ہوں
زمیں کے دوستوں کے نام کچھ پیغام دیتا ہوں
بہن عصمت٭ سے کہنا کب تلک فلمیں بناؤ گی
یہ حالت ہو گئی ہے آہ کیا اب بھی نہ آؤ گی
جو یاد آ جائے عصمت کی تو شاہد٭ بھی چلا آئے
وہ ضدی٭ آتے آتے اپنی فلمیں سب جلا آئے
مہندر ناتھ کو اور کرشن٭ کو بھی خط یہ دکھلاؤ
جو ممکن ہو تو دونوں بھائیوں کو ساتھ لے آؤ
اگر دنیا نہ آتی ہو موافق “فیض” و “راشد” کو
تو ان سے پوچھ کر لکھو، میں بھیجوں اپنے قاصد کو؟
نہ آئیں گر تو کہہ دینا کہ “پطرس” نے بلایا ہے
تمہاری یاد میں “تاثیر” تڑپا تلملایا ہے
تمہیں ہر روز “حسرت” اور “سالک” یاد کرتے ہیں
تمہیں یہ دونوں اخباروں کے مالک یاد کرتے ہیں
مجہے امید ہے یہ سن کے دونوں دوڑے آئیں گے
مری جنت میں آ کر اک نئی جنت بسائیں گے
دعا ہے یہ خدایا سب زمیں کے دوست مر جائیں
یہ جنت کے چمن، یہ گھر، یہ سڑکیں ان سے بھر جائیں
(راجہ مہدی علی خاں)
اس نظم نما خط کا سیاق و سباق سمجھنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ بمبئی کی سڑکوں پر تقسیم سے قبل جب کبھی منٹو چہل قدمی کے لیے نکلا کرتے تہے، تو راہ چلتے لوگ اکثر ان کے بارے میں دریافت کرتے تہے، کہ وہ کون ہیں؟ کیونکہ اس زمانے میں منٹو کی شخصیت بہت پرکشش ہوا کرتی تھی۔ کشمیری ہونے کی وجہ سے انکا رنگ سرخ و سفید تو تھا ہی لیکن مجموعی طور پر بھی منٹو ایک خوبصورت اور خوش وضع انسان تھے وہ فیشن ایبل اور صاف سھترے کپڑے پہننا پسند کرتے تھے۔ ان کا مخصوص فریم کا چشمہ انکی شخصیت میں چار چاند لگاتا تھا، لیکن افسوس کہ اس انسان کو مسائل اور نفرتوں کی یلغار نے ختم کر دیا۔ حالات و مسائل سے برسرپیکار سعادت حسن منٹو 18 فروری 1955 کو 42 سال کی عمر میں زندگی کی جنگ ہار گئے۔
٭بائیکلہ، بمبئی کا وہ علاقہ جہاں سعادت حسن منٹو کی رہائش تھی
٭ صفیہ یعنی صفیہ منٹو، منٹو کی بیوی
٭ عصمت یعنی مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی
٭ شاہد، عصمت چغتائی کا شوہر
٭ ضدی، ایک فلم جو شاہد نے بنائی اور عصمت چغتائی نے اس کی کہانی لکھی۔