لورالائی میں ہونے والے بہیمانہ قتل پر عمران خان خاموش رہے۔ مجھے حیرت ہوئی۔
25 سال پہلے کی بات ہے کرکٹ کو خیرباد کہتے ہوئے اور کبھی سیاست میں نہ آنے کا نعرہ لگاتے ہوئے عمران خان ایک روحانی اور عملی سفر پر نکلے اور ایک کتاب لکھ ڈالی۔ کتاب انگریزی میں تھی، اردو میں اس کا نام ہوگا ’جنگجو قوم: میرا قبائلی علاقوں کا سفر‘۔
کتاب میں شامل کچھ تصویریں آج بھی یاد ہیں۔ عمران خان قبائلی سرداروں کے ساتھ سرخ قالینوں پر بیٹھے گپ شپ کر رہے ہیں۔ کبھی قہوہ پی رہے ہیں، کبھی کلاشنکوف چلا رہے ہیں، کبھی کسی لق و دق پہاڑ پر کھڑے پوز بنا رہے ہیں۔
کتاب کا پیغام بھی کچھ اسی طرح کا تھا کہ میں اپنی جڑوں تک پہنچ گیا ہوں۔ ہو سکتا ہے شکل سے میں دیسی انگریز لگتا ہوں لیکن اندر سے میں جی اتنا پٹھان ہوں جتنے یہ قبائلی ہیں۔ ان کی میزبانی دیکھو، ان کے کندھے پر لٹکی بندوق دیکھو، ان کا جرگہ سسٹم چیک کرو۔ یہ آزاد منش کوہستانی دنیا کے بہترین انسان ہیں اور میں بھی ان میں سے ایک ہوں۔
اس کے بعد جو وہ سیاست میں آئے اور 18 سال تک ان کی سیاست ایک لطیفہ بنی رہی، تب بھی انھوں نے اپنی پشتون شناخت کو مرکزی حیثیت دی۔
طالبان بھٹکے ہوئے بھائی، ڈرون حملے دہشت گردی کی اصل وجہ۔ سڑک پر چارپائی ڈال کر نیٹو سپلائی رکوانے کی کوشش کی۔ ان کی سیاست سے آپ لاکھوں اختلاف کریں لیکن پشتون قوم اور خاص طور پر قبائلی علاقوں میں بسنے والوں کے لیے جتنا درد ان کے دل میں تھا وہ پاکستان کے کسی اور سیاستدان کے دل میں نہیں تھا۔
پورے ملک میں جب عمران خان کو لوگوں نے جھنڈی کرا دی اس وقت بھی پشتونوں نے اپنا صوبہ ان کے حوالے کر دیا۔ برصغیر کے پرانے فاتحین کی طرح وہ شمال سے طوفان کی طرح اٹھے اور اسلام آباد کے تخت پر جا بیٹھے۔
مرکز میں جو ٹیم لے کر آئے اس میں جو نئے چہرے آئے وہ ان کے پرانے پشتون ساتھی تھے۔ اگرچہ ان کی کابینہ میں زیادہ تر پاکستان کی سیاست کی باسی دیگ کے پرانے چاول اور موسمی ٹیکنوکریٹ ہیں لیکن ان کی اصل طاقت مراد سعید، شہریار آفریدی اور گنڈاپور جیسے چیتے ہیں جو ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کو بدزبان اور ہتھ چھٹ لگیں لیکن وہ اپنے لوگوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور عمران خان سے ان کی وفاداری ایسی ہی ہے جو عمران خان کی تصوراتی جنگجو قوم کی اپنے قبیلے کے سردار سے ہوتی ہو گی۔
ان حالات میں لورالائی میں ایک پشتون پروفیسر پشتونوں کے حقوق کے لیے پرامن احتجاج میں مارا جاتا ہے اور عمران خان خاموش رہتے ہیں۔ اگر عمران خان کو پرانی پشتون روایات یاد رہیں تو انھیں چاہیے تھا کہ وہ فون اٹھا کر کسی قبائلی سردار سے پوچھتے کہ کیا کرنا ہے۔
ہو سکتا ہے انھیں بتایا جاتا کہ زیادہ تر سردار یا تو ڈرون حملوں میں یا بھٹکے ہوئے بھائیوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ ان کی اولاد ان کندھے پر بندوق لٹکا کر پہاڑوں میں نہیں گھومتی بلکہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے شہروں میں آ گئی ہے۔
چونکہ کئی سالوں تک میڈیا ان لوگوں کے دکھ درد سننے ان تک نہیں پہنچا تو وہ اب آپ کے شہروں میں اپنے پیاروں کی تصویریں لے کر پہنچ گئے ہیں۔ پوچھتے ہیں کہ ہمارے بچے کہاں ہیں؟ جنگجو قوم اب اپی جنگ پوسٹروں، نعروں اور جلسوں میں لڑ رہی ہے۔
مجھے نہیں یاد پڑتا کہ عمران خان کی جنگجو والی کتاب میں کسی عورت کی تصویر تھی لیکن اب پشتون عورتیں اپنے شہید بھائی کی لاش پر کھڑے ہو کر تقریر کرتی ہیں۔
عمران خان کی حکومت ان میں سے ایک عورت کو اسلام آباد میں اٹھا کر غائب کر دیتی ہے اور شیریں مزاری کو تھانوں کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔
یہ ہیں وہ عظیم پشتون روایات جن کی تبلیغ کر کے عمران خان وزیرِاعظم بنے ہیں۔ پشتون نوجوان بھی سوچتے ہوں گے کہ عمران تو وزیرِاعظم بن گیا، خان کدھر گیا؟
جنگجو پشتون ہوں یا سندھ کا ہاری، سب کا کلچر سمٹ کر اتنا رہ جاتا ہے کہ جب تک انصاف نہیں کرو گے میں تمہارے در سے اٹھ کر نہیں جاؤں گا!