مصباح چوہدری
ہر سال 8 مارچ آتا ہے اور معاشرے میں خواتین کے مقام اور حقوق پر ایک بحث چھڑ جاتی ہے۔ دو مختلف اندازِ فکر آمنے سامنے آ کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک کا اصرار ہے کہ عورت کے مقام کا تعین اسلام کئی سو سال پہلے کر چکا ہے لہذا بحث کی کوئی گنجائش نہیں اور حقوقِ نسواں کے جو نعرے آج کل لگائے جاتے ہیں وہ بے بنیاد اور مادر پدر آزادی حاصل کرنے کی کوشش ہیں۔ اس سلسے میں اسلام سے پہلے خواتین کی حالتِ زار موازنے کے طور پر پیش کی جاتی ہے۔ دوسری طرف حقوقِ نسواں کے علمبردار ہیں جو بضد ہیں کہ عورت کا استحصال کیا جا رہا ہے۔ یہ ختم ہونا چاہیے اور عورت کو اپنی زندگی پر مکمل اختیار ملنا چاہیے۔ دلچسپ بات یہ ہے دونوں اندازِ فکر کے حامی ایک دوسرے پر عورت کے استحصال کا الزام لگاتے ہیں۔
خواتین کے عالمی دن کی تاریخ میں جائے بغیر میں اسلام میں عورت کو دیے گئے حقوق اور پاکستان میں خواتین کے حوالے سے زمینی حقائق بیان کروں گی۔ چند بڑے شہروں کے علاوہ یا زیادہ خوش گمانی سے کام لیا جائے تو یوں کہیے کہ شہروں کے علاوہ زیادہ تر دیہی علاقوں کی عورتوں کو تعلیم کے بنیادی حق سے محروم رکھا جاتا ہے۔ علم، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہو سکتے ہیں، سے عورتوں کو محروم رکھا جاتا ہے۔
عورت کہ جس کے کندھوں پر نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری بھی ہے، اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ معاشرہ تنزلی کی طرف کیوں جا رہا ہے۔ تعلیم کا مقصد انسان کو شعور عطا کرنا اور حالات کا بہتر طور پر مقابلہ کرنا سکھانا ہے۔ عوائل اسلام میں بہت ساری خواتین کے نام ہیں جو علم کے ساتھ ساتھ اپنی ایک واضح رائے رکھتی تھیں۔ آج کل عورتوں کو یہ سہولت میسر نہیں، اگر کوئی عورت ایسی جرأت کرتی ہے تو اس پر ایک خود سر، بد دماغ اور گھریلو زندگی کے لیے نا اہل ہونے کا لیبل لگا دیا جاتا ہے۔ میں مردوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرا رہی یہ کام عورتیں خود بخوبی انجام دے لیتی ہیں۔
دوسرا سلگتا ہوا موضوع ہے عورت کو اپنی زندگی کہ فیصلے کرنے میں آزادی ہونی چاہیے یا نہیں۔ ویسے تو ہمارے سماج میں بہت سے مرد بھی اپنے فیصلے کرنے میں آزاد نہیں ہیں لیکن آج چونکہ خواتین کا عالمی دن ہے اس لیے بات عورتوں تک ہی محدود رکھی جائے گی۔ ان فیصلوں میں بڑے بڑے فیصلے اپنی پسند سے شادی کا حق، کاروبار یا کسی اور پیشے سے منسلک ہونے کا حق شامل ہیں۔ خدا تو آپ کو یہ حق دیتا ہے لیکن موجودہ دور میں اگر عورت یہ فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لے تو اس سے وابسطہ مردوں کی عزت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ یقینناَ مختلف مثالیں بھی ہیں لیکن وہ آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور ایسی عورتیں بھی ہیں جو بخوشی اپنے فیصلوں کا اختیار مردوں کو دے دیتی ہیں لیکن اس کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ ہر کسی سے یہ توقع رکھی جائے۔
دنیا میں وہی قومیں حکومت کرتی ہیں جو معاشی طور پر مضبوط ہوتی ہیں۔ اس معاشی برتری کی بنا پر وہ کمزور قوموں سے باز اوقات اپنے نا جائز مطالبات بھی منوا لیتی ہیں۔ سارا مسئلہ ہی معاشی ہے۔ اسلام عورت کو معاشی طور پر مضبوط کرتا ہے۔ باپ، شوہر اور بیٹے کی جائیداد میں عورت کا حصہ رکھتا ہے اس کے علاوہ عورتوں کو مختلف پیشے اختیار کرنے کی اجازت بھی دیتا ہے لیکن کتنی عورتیں ہیں جو وراثت میں سے اپنے حصے کی مالک بن سکتی ہیں؟ اس طرح معاشی طور پر عورت مرد پر انحصار کرتی ہے جس میں کچھ غلط بھی نہیں کیونکہ یہ مرد پر ہی فرض کیا گیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اس معاشی انحصار کو جس طرح مرد کی طاقت اور عورت کی کمزوری بنایا جاتا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
یہ سب باتیں نظر انداز کر کے کیا صرف یہ کہ دینے سے فرض پورا ہو جاتا ہے کہ اسلام عورت کو حقوق دیتا ہے؟
اسلام عورت کو حقوق دیتا ہے اور کیا آج وہ حقوق عورت کو میسر ہیں دونوں الگ باتیں ہیں۔ جب تک عورت کی جائز انفرادی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا حقوقِ نسواں کی تحریکیں أٹھتی رہیں گی۔ جتنا ان کو دبایا جائے گا وہ اتنی ہی شدت سے أبھریں گی۔ حکومتی سطح پر اس حوالے سے بہت کام ہوا بھی ہے اور جاری بھی ہے لیکن عوامی سطح پر شعور بیدار کرنے کی شدت سے ضرورت ہے۔ عورت اور مرد لازم و ملزوم ہیں ان کے درمیان ایک دوسرے کی انسانی و انفرادی حیثیت تسلیم کر کے باہمی احترام اور تعاون سے ہی متوازن معاشرہ قائم ہو سکتا ہے۔