زرمین زہرا
خواتین کے عالمی دن کے موقع پر جگہ جگہ تقاریب کا انعقاد کیا گیا وزراء کو مدعو کیا گیا۔ ملک کا نام روشن کرنے والی خواتین کو خراج تحسین پیش کیا گیا لیکن مضحکہ خیز تو یہ ہے۔ خواتین کے عالمی دن پر مرد حضرات تقاریر کرتے ہیں اور عورتوں کے دن کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔ تو ظاہر ہے وہ اپنی سوچ اپنے معیار کے مطابق حقوق نسواں کا پرچار کرتے ہیں۔
خواتین کو گھر سے باہر جا کر کام کرنے کی آزادی ملنا ہی ہمارے ہاں سب سے بڑی آزادی مانا جاتا ہے۔ جائیداد میں حق مل جانا یا معاشرے میں عزت و مقام مل جانا بھی نمایاں حقوق میں شامل ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی خواتین کو ان کے حقوق اس حد تک ہی معلوم ہیں۔ لیکن کیا اصل میں حقوقِ نسواں صرف یہ ہی ہیں کچھ ایسے حقوق بھی ہیں جن کا خواتین کو اندازہ ہی نہیں ہے۔ جیسے کہ بچپن سے ہی اپنے بھائی کے برابر سلوک کیے جانے کا حق، کسی بھی معاملے میں آپ کی رائے کو آپ کے بھائی یا خاوند کی رائے کے برابر اہمیت ملنا، حتٰی کہ آپ کے دفتر میں ایئر کنڈیشنز کا درجہ حرارت آپ کی مرضی کے مطابق رہنے دینا، دفتر کا کوئی بھی مشکل کام آپ کی بجائے مرد حضرات کو اس لئے دے دیا جانا کیونکہ وہ خواتین کے لئے مشکل ثابت ہوگا۔ ایسے بہت سی غیر دانستہ چیزیں ہر روز یہ واضح کرتی ہیں کہ یا تو روز وومین ڈے منانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ایک دن کی بجائے ہر روز مین ڈے منانا چائیے کیونکہ مردوں کے معاشرے میں خواتین کو حقوق تو مردوں نے ہی دینے ہیں۔
ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں قوموں کی عزت ہم سے ہے ہر تقریر سیمنار میں قوم کا وقار مریم مختیار، ارفعہ کریم، بینظیر بھٹو اور ملالہ یوسفزئی ایسی کئی خواتین کی مثالیں پیش کی جاتی ہیں لیکن خواتین کے عالمی دن پر بات تو تمام خواتین کے حوالے سے ہونی چائیے اب ایسا تو ممکن نہیں کہ ہر خاتون جہاز اڑانا سیکھ جائے یا سیاست میں آ کر ملکی امور چلانے لگ جائے ایسا کچھ خواتین ضرور کریں گی لیکن ان کی تعداد 5 فیصد سے بھی کم ہوگی۔
ایک اور پہلو بھی ملاحظہ فرمائیں! خواتین کا اپنی ذاتی رائے رکھنا یا اپنی سوچ کے مطابق موقف اپنانا بھی ہمارا رواج نہیں ہے۔ عموماً تو خواتین کی رائے وہی ہوتی ہے جو ان کے خاوند یا سرپرست کی ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے تو کیا ان کی سوچ بھی اپنی نہیں ہوتی۔ اگر کوئی خاتون اپنی رائے رکھتی ہو تو اس کی ذات سے نتائج اخذ کرنے والے بھی بہت موجود ہوتے ہیں۔ جنگ ہوں یا امن، عورت کے لئے حالات ہمیشہ ناموافق ہی رہتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ خواتین کو بے خوف ہو کر جینا نہیں سکھاتا۔ کیوں کہ وہ ڈرتا ہے کہ بے خوف ہو کر کہیں خاتون سماج کے لئے زلت کا باعث نہ بن جائے لیکن ایسے تو یہ معاشرہ خود بھی خوف کا شکار ہوا اس کا عذر یہ بھی پیش کیا جاتا ہے کہ اسلام ایک حد تک خواتین کو آزادی دیتا ہے۔ لیکن ہمارا مذہب ہرگز خواتین کو خوف میں رہ کر جینا نہیں سکھاتا وہ تو ان کے حقوق سے ان کو واقفیت کرواتا ہے عقل و شعور سے اپنے دائرے کار کو پہنچاننے کا درس دیتا ہے۔
ہم خواتین کا عالمی دن منا کہ یہ احساس دلاتے ہیں کہ مزدوروں، معذوروں اور کشمیریوں کے دن کی طرح یہ دن بھی کسی نہ ملنے والے حق یا کسی کمی کی بناء پر منایا جا رہا ہے ہم کیوں احساس دلاتے ہیں کہ معاشرے میں خواتین کا وہ مقام نہیں ہے۔ اس مقام کو واپس لانے کے لئے ہم ایک دن مناتے ہیں۔ بے شک خواتین کے حقوق آج بھی پاکستان خاص کر جنوبی اور وسطیٰ ایشیاء کے ممالک میں مغرب سے کم ہیں۔ جیسے بنیادی تعلیم کا حق، کسی بھی ظلم کے خلاف اپنے لیے آواز اٹھانے کا حق بے شک یہ آگاہی بہت ضروری ہے۔ لیکن اس کے لئے مردوں کا شعور اہم ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خواتین کے بنیادی اہم فیصلے تومردوں نے ہی کرنے ہیں جیسا کہ بنیادی تعلیم دلانے کا حق اور اپنی رائے کو دوسروں سے سامنے رکھنا سکھانے کا حق۔
خواتین کے عالمی دن پر ہم یہ کیوں نہ احساس کر لیں کہ ہر خاتون اپنے اپنے کام میں اپنے اپنے طریقے سے خاص ہے اسے اپنے آپ کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اس کے لئے ایک روز مختص نہیں کرنا چاہیے۔ یوم نسواں کسی نہ ملنے والے حقوق کی ترجمانی نہیں ہونا چائیے۔ ہر دن خواتین کا دن ہے اپنے اوپر اعتماد، فخر اور آزادی کو منانے کا دن ہر روز خواتین اپنے آپ اور دوسری خواتین کو خراج تحسین پیش کر سکتی ہیں۔ ایک خاتون اپنی ذات پر یقین و اعتماد رکھ کر سب سے بہادر کام کرتی ہے کیونکہ وہ جان لیتی ہے کہ اس دنیا میں بے خوف ہو کر جینا ہی اصل زندگی ہے۔ بہرحال یہ ضروری ہے کہ عورت کو سب سے پہلے انسان تسلیم کر لیا جائے اور انسان تو سب برابر ہوتے ہیں اگر خواتین کا دن منایا جاتا ہے تو انسانوں کا دن بھی منانا چاہیے۔