عورت مارچ کے بعد سوشل میڈیا پر ایک طوفان اٹھ گیا ہے۔ مرد تو مرد عورتیں بھی ان خواتین کو باعث شرم سمجھ رہی ہیں۔
22 سالہ ڈگری لینے والے بھی کیوں اپنے ذہنوں کو بند کیے ہوئے ہیں۔ ایسے ایسے کمنٹس اور سٹیٹس۔ اور اخلاق سے گری گالیاں۔ کہ بس استغفار کی جا سکتی ہے
۔ مجھے خود بھی ایسی آزادی نہیں چاہیے۔ میں مرد کی قدر بھی کرتی ہوں اور اس کا احترام بھی۔ لیکن عورت کا مرد حاکم نہیں ہے، سرپرست ہے۔ اس لیے اس کو مشین سمجھ کر اپنی انگلیوں پر بھی نچایا نہیں جا سکتا۔
خیر باپ بھائی کی روک ٹوک کی تو سمجھ بھی آتی ہے۔ لیکن آپ سب کون ہیں۔ ؟
معزرت کے ساتھ انگلیاں اٹھانے اور کمنٹس کرنے والے مردوں میں سے بیشتر وہی ہیں جنہوں نے چند دن قبل ویلنٹائن ڈے کو کسی کی بیٹی کے ساتھ بڑے فخر سے منایا ہو گا۔ ان میں سے اکثر مرد وہ ہیں جو پاس گزرتی ہر لڑکی چاہے وہ 7 سالہ زینب ہو یا 55 سالہ خالہ برکتے سب کو دیکھنا فرض سمجھتے ہیں۔ دیکھنے سے مراد یہاں پر تاڑنا ہے
انکے انٹر نیٹ کی ہسٹری، موبائل کا سامان۔ شاید ہی دیکھا جا سکتا ہو۔
۔ ان کے موبائل میں دس دس نمبرز ہوتے ہیں۔ اور جس سے جتنا داؤ لگے لگاتے ہیں۔ اور اس وقت حدود، شریعت۔ یہ کچھ نہیں ہوتا ہے۔ اور تو اور پردہ دار پر بھی کمنٹس کرتے ہیں۔ ہراس کرتے ہیں۔ سیٹی۔ فقرہ بازی۔ تمھاری نظر کے تیر۔ معنی خیز مسکراہٹ۔ (اور ہاں یہ تو شریف مردوں کا معمول ہے جسے وہ ہراسمنٹ سمجھتے ہی نہیں ہیں ) جو شریف نہیں ان کا لیول تو یہاں لکھ بھی نہیں سکتی۔
تم کو باہر کی عورت شریف بھی چاہیے۔ ساری بے حیائی ہم عورتوں کی پیدا کردہ ہے۔ لیکن بستر میں بھی بیوی کے علاوہ کئی کئی عورتیں چاہئیں
کل کی تصاویر میں سے بیشتر سے میں اتفاق نہیں کرتی فیمینزم کے نام پر مرد کو ڈی گریڈ کرنا بھی اچھا نہیں ہے۔ برابری کا تضاضا کرنے کا مطلب خود کو اس مقام سے گرانا ہے جو ہمیں ہمارے مذہب نے دیا ہے۔ اللہ کا شکر ہے اسلام عورت کو مرد سے بہت زیادہ عزت اور مقام دیتا ہے۔
لیکن
برصغیر کے مسلمان مردوں کی اکثریت عورت کو ہندوانہ مقام دینا چاہتی ہے۔ ۔ تم عورت کو بس ماتحت چاہتے ہو، چاہے آفس ہو، ۔ گھر یا یونیورسٹی۔ مرد سے برداشت نہیں ہوتا کہ عورت با اختیار ہو جائے۔ اسی لیے کبھی اس کے لہجے پر تنقید اور کبھی کپڑوں پر۔ کبھی چال چلن۔
میرے نزدیک معیوب لباس بے شک عورت کو نہیں پہننا چاہیے، لیکن عورت کے ہی لباس پر گفتگو کیوں کی جاتی ہے۔ مرد کی نگاہ کے متعلق قرآن تو عورت کے پردے سے پہلے کہتا ہے۔
لیکن میں اس حق میں نہیں کہ کسی کو روک ٹوک کروں۔ مذہب، لباس، یہ صرف ذاتی معاملات ہونے چاہیں ایک انسان کے
میرے نزدیک عورت کو بس مجبور نہیں ہونا چاہیے۔ گھر بیٹھنا عورت کی مجبوری نہیں مرضی ہونا چاہیے نا عورت کو شریف کا سرٹیفیکٹ لینے کے لیے گھر بیٹھنا ہے۔ نا بچے پیدا کرنے اور کچن چلانے کے لیے، نا خاندانی دباؤ کی وجہ سے
عورت کو اس کا مذہب بزنس چلانے، زخمیوں کو پانی پلانے، جنگ میں کمانڈ دینے، بچوں کو پڑھانے کی اجازت بھی دیتا ہے۔
تو عورت کو کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتی ہے۔ کل کا سوشل میڈیا پر شور اٹھ رہا ہے پلے کارڈز کو لیکر۔ آپ کو کیا مسئلہ ہے۔ کیا وہ آپ کے گھر اور خاندان کی نمائندگی کر رہیں ہیں۔ ؟
عورت پر برائے مہربانی مختلف ٹیگ مت لگائیں۔ پلے کارڈز اٹھائی ہوئی خواتین کی سوچ آپ کو پسند نہیں تو بد تمیزی آپ کا حق نہیں ہے۔ چھوڑ دیں انہیں۔ جو وہ کرنا چاہتی ہیں وہ کریں۔ دوسروں پر انگلی تب اٹھائیں جب آپ اپنے گریبان میں فرشتہ ہوں۔ برا کسی کو تب کہیں جب آپ نیک ہیں۔
فتوی اور سزا تب دیں جب اللہ سے آپ اختیار لے کر آئیے ہیں۔
معاشرے کو اصلاح کی ضرورت ہے، مزید بگاڑ، فساد برداشت نہیں کر سکتے اب۔ بس عزت دو۔ نہیں تو نظر انداز کر دو۔