عورتوں کا عالمی دن آیا اور گزر گیا مگر کیا دن تھا کہ دو روز گزرنے کے بعد بھی اس کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔
‘ہاو ہائے’ کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جس کا کوئی انت ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ خاصے معقول لوگ بھی ان بچگانہ نعروں سے پریشان ہیں جن کا حقیقت کی دنیا سے کوئی خاص تعلق نہیں۔
ہوا یوں کہ پچھلے سال کہیں ایک پلے کارڈ پہ کسی شریر لڑکی نے لکھ دیا ، ‘کھانا خود گرم کر لو’ ۔
سال گزر گیا ہے مگر اس جملے پہ تلملانے اور دانت پیسنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پچھلے سال ہی ‘میرا جسم، میری مرضی’ کی آواز اٹھی۔ یہ مکہ تو سیدھا ناک پہ لگا۔ بھنا کے رہ گئے۔ خیر، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
بارش ژالہ باری اور اس بیچ میں سنہری دھوپ سے بھرا مارچ کا پہلا ہفتہ پھر آیا، آٹھ مارچ کا دن آیا اور پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں ‘عورت مارچ ‘ ہوا۔
اس مارچ میں عورتوں، لڑکیوں اور بچیوں کے ساتھ کچھ مرد فیمنسٹ بھی گتے اٹھائے شریک تھے۔ یہ گتے، عام گتے نہ تھے، ہانکا کرنے کے کنستر تھے۔
آپ میں سے جن لوگوں کو شکاریات سے دلچسپی ہے اور انھوں نے جم کاربٹ جیسے شکاریوں کی داستانیں پڑھ رکھی ہیں، انہیں یقیناً ‘ ہانکے‘ کی تکنیک کے بارے میں بخوبی علم ہو گا۔
گھاگ شکاریوں کا سامنا جب کسی بہت ہی عیار اور موذی جانور سے پڑ جائے جو کسی طرح اپنی کمین گاہ سے نکلنے پہ آمادہ نہ ہو تو اس کے لیے ‘ہانکا’ کیا جاتا ہے۔
اس طریقے میں ہوتا یہ ہے کہ اصل شکاری کہیں مچان یا آڑ میں بیٹھ جاتا ہے اور علاقے کے شریروں کو خالی کنستر، ٹین اور ڈنڈے دے کر مذکورہ علاقے کے گھیراؤ کو روانہ کیا جاتا ہے۔
یہ لوگ شکاری نہیں ہوتے، ان کا مقصد صرف شور مچا کے موذی کو اس کی کمین گاہ سے نکال کے شکاری کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔
یہ طریقہ ہر شکار میں کار آمد نہیں ہوتا۔ بعض اوقات شکاری خاموشی سے گھات لگا کے بیٹھ جاتا ہے اور شکار کے باہر نکلنے کا انتظار کرتا ہے۔
تیسرے طریقے میں ‘چارہ ‘ دکھا کے شکار کو دام میں لایا جاتا ہے ۔ طریقہ خواہ کوئی بھی ہو، مقصد ایک ہی ہوتا ہے ۔ موذی سے اپنے علاقے کو پاک کرنا۔
مسوجینسٹ، یا عورتوں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد بھی معاشرے میں موذی جانور کی طرح پائے جاتے ہیں۔ یہ کسی نہ کسی طرح عورتوں کو کمزور کرنے، ان کے خلاف زبانی مہم چلانے، انھیں جنسی یا سماجی طور پہ ہراساں کرنے اور ان پہ جسمانی اور ذہنی تشدد کرنے میں ملوث ہوتے ہیں۔
ان کی موجودگی کی وجہ سے عورتیں، جو کہ معاشرے کا نصف حصہ ہیں، اپنا مثبت کردار ادا کرنے میں ناکام رہتی ہیں یوں مردوں پہ دگنا بوجھ پڑ جاتا ہے۔
اس سماجی ناہمواری کی وجہ سے بعض اوقات نارمل مرد بھی ان موذی افراد کا سا سلوک کرنے لگتے ہیں۔ اگرمعاشرے میں عورت کی صنف کی وجہ سے اس کے خلاف جرائم کی سطح بڑھ جائے گی تو وہ خوفزدہ ہو کے گھروں میں بند ہو جائے گی۔
یوں معاشرہ جس کی اکائی گھر ہے، وہی گھر جو مرد اور عورت کے ملنے سے بنتا ہے مفلوج ہو کے رہ جائے گا۔
اس ساری طولانی تمہید کا مقصد یہ ہے کہ اس برس ‘یومِ خواتین’ پہ بلند کیے گئے نعرے دراصل ہانکے کے لیے کیا جانے والا شور و غوغا تھا۔ ان نعروں میں سنجیدگی کا عنصر ہو یا نہ ہو، اتنا ضرور ہوا کہ بہت سے بگلہ بھگت، بہت سے رنگے سیار، جو بھیڑ کے روپ میں بھیڑیا بنے مہذب ہونے کا ڈھونگ رچا رہے تھے، کُھل کے سامنے آ گئے۔
پیارے بچو! ہمیں نہ بتاؤ کہ اس تحریک کے اصل مقاصد کیا تھے اور یہ نعرے بچگانہ ہیں یا عورتوں کے اصل مسائل کیا ہیں؟
عورت سے زیادہ اس کے مسائل کو کون جانے گا؟ دوسرا موزہ نہ ڈھونڈ سکنے والا مرد؟ ارے بھئی! یہ ڈھول ڈھمکا، نعرے بازی تو فقط ہانکا تھا۔
فلم ابھی باقی ہے میرے دوست! اگلے سال کے یومِ خواتین تک اس سال کا یومِ خواتین مبارک!