پچاس نمازیوں کا قتلِ عام جن جن ممالک میں ممکن ہے۔ کل تک ان میں نیوزی لینڈ بہرحال شامل نہیں تھا۔ نیوزی لینڈ کی پچاس لاکھ آبادی میں ایشیائی تارکینِ وطن کی تعداد آج بھی بارہ فیصد سے زائد نہیں اور ان میں بھی مسلمان محض ایک اعشاریہ دو فیصد ہیں۔
کئی تبصرے باز فوراً یہ نکتہ نکالنے میں لگ گئے ہیں کہ اگر قاتل ایک سفید فام آسٹریلین ہونے کے بجائے عرب یا جنوبی ایشیائی نژاد نیوزی لینڈر یا آسٹریلین ہوتا اور مسجد کے بجائے کسی چرچ میں قتلِ عام ہوتا تو اس وقت آک لینڈ سے یورپی یونین کے ہیڈ کوارٹر برسلز تک اور برسلز سے اقوامِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر نیویارک تک ایک سفارتی و میڈیائی صفِ ماتم بچھ چکی ہوتی اور اس سانحے کو نیوزی لینڈ کا نائن الیون قرار دیتے ہوئے بہت سے ممالک اپنے امیگریشن قوانین کو مزید سخت کرنے کے لیے بیٹھ چکے ہوتے اور لندن سے سڈنی تک انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست اور نیو نازی چیخ چیخ کر گلا بٹھا چکے ہوتے کہ یہ کسی ایک قاتل کا فعل نہیں بلکہ اس کے پیچھے پورا ایک نظریہ اور عدم برداشت کے خمیر سے گندھی مذہبی سوچ ہے وغیرہ وغیرہ۔
مگر میں سلام کرتا ہوں نیوزی لینڈ کی وزیرِ اعظم جیکنڈا آرڈرن کو جنہوں نے اس قتلِ عام کی خبر ملتے ہی یکے بعد دیگرے دو پریس کانفرنسیں کیں اور کسی قیل و قال یا معذرت خواہانہ لہجہ اختیار کیے بغیر یا ”ہمیں اس قتلِ عام کے محرکات کا جائزہ لینا پڑیگا“ ٹائپ ردی جملوں کا سہارا لیے بغیر سیدھے سیدھے بھرائی ہوئی آواز میں کہا، ”اس فائرنگ سے براہ راست متاثر ہونے والے زیادہ تر لوگ یا تو مہاجر ہیں یا پھر تارکینِ وطن جنہوں نے نیوزی لینڈ کو اپنا گھر بنایا۔
ہاں یہ ان کا گھر ہے اور وہ ہمارا حصہ ہیں۔ جس شخص نے ہمارے خلاف اس بدترین جرم کا ارتکاب کیا وہ ہم میں سے نہیں۔ ایسے تشدد کی نیوزی لینڈ میں کوئی جگہ نہیں۔ آج کا دن ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ ہم پر یہ حملہ اس لیے ہوا کہ ہم یک رنگی کے بجائے نسلی و سماجی رنگا رنگی پر یقین رکھتے ہیں۔ براہ کرم حملہ آور کی پرتشدد وڈیوز اور اس کے تحریری جواز کو شئیر نہ کریں، اسے آگے نہ بڑھائیں تاکہ اس پرتشدد سوچ کو آکسیجن نہ مل سکے“۔
قاتل نے واردات سے پہلے سوشل میڈیا پر اپنا جو چوہتر صفحاتی منشور پوسٹ کیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی عمر اٹھائیس برس ہے اور وہ صرف اس واردات کے لیے آسٹریلیا سے نیوزی لینڈ پہنچا۔ اس کا ارادہ محض کرائسٹ چرچ کی مسجدِ نور یا مضافاتی علاقے لن وڈ کی مسجد کو نشانہ بنانا نہیں تھا بلکہ ایک قریبی قصبے ایشبرٹن کی مسجد بھی اس کا ہدف تھی۔ قاتل نے اس واردات کے لیے سب مشین گن استعمال کی اور بقولِ خود ”میں اس کارروائی کے ذریعے لوگوں کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ دنیا کا یہ انتہائی دور دراز کونہ بھی تارکینِ وطن کے ٹڈی دل سے محفوظ نہیں۔ “
نیوزی لینڈ میں کل سے پہلے قتل کی سب سے خونی واردات انیس سو نوے میں ہوئی تھی جب اراموآنا قصبے میں ایک ذہنی توازن کھوئے شخص نے تیرہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس کے بعد اسلحہ رکھنے کی آزادی کو ایک سیفٹی کورس پاس کرنے سے مشروط کر دیا گیا اور ایک عام شہری نئے قانون کے تحت شاٹ گن کے سوا کوئی آتشیں اسلحہ نہیں رکھ سکتا۔
قاتل کا تعلق آسٹریلیا سے ہے اور وہ سفید فام ہے۔ آسٹریلیا میں تئیس برس پہلے تک شہریوں کو اسلحہ رکھنے کی کھلی آزادی تھی۔ مگر اٹھائیس اپریل انیس سو چھیانوے کو تسمانیہ کے قصبے پورٹ آرتھر میں ایک مقامی باشندے کے ہاتھوں پینتیس سیاحوں کے قتلِ عام کے بعد سے اسلحہ قوانین پر کڑی نظرِ ثانی کی گئی اور عام شہریوں کے لیے خود کار اور نیم خودکار ہتھیاروں کی ملکیت منسوخ کر دی گئی۔ حکومت نے ساڑھے چھ لاکھ ہتھیار شہریوں سے واپس خریدے اور ساٹھ ہزار ہتھیار شہریوں نے ازخود جمع کروا دیے۔
اس پالیسی کی امریکا میں گن کنٹرول لابی نے خاصی واہ واہ کی اور اسے ایک مثالی پالیسی قرار دیا۔ یہ درست ہے کہ تسمانیہ کے قتلِ عام کے بعد آسٹریلیا میں دوبارہ ایسی خونی واردات نہیں ہوئی۔ مگر آسٹریلیا میں نسلی تعصبات کی تاریخ نیوّزی لینڈ کے مقابلے میں بہت گہری اور پرانی ہے۔ گویا ہاتھ غیر مسلح ہیں مگر دماغ مسلح۔
انیس سو تہتر کے بعد سے آسٹریلیا نے خالص سفید فام ملک ہونے کی ریاستی پالیسی بدل دی ہے اور اس وقت آسٹریلیا کی ڈھائی کروڑ آبادی میں سے پچاس لاکھ غیر سفید فام تارکینِ وطن ہیں اور ان میں دنیا کے ہر ملک کا باشندہ پایا جاتا ہے مگر ایک طویل عرصے تک نسل پرستی چونکہ ریاستی پالیسی کا حصہ رہی لہٰذا اس کے اثرات آج بھی آسٹریلیا کے سفید فام سماج میں نیوزی لینڈ کے برعکس بہت زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔
مثلاً گزشتہ برس آسٹریلیا میں نسل پرست نیو نازی رہنما بلئیر کوٹریل کے اسکائی نیوز نیٹ ورک پر نشر ہونے والے انٹرویو پر ہنگامہ ہو گیا۔ اس میں بلئیر صاحب نے فرمایا کہ آسٹریلیا کے ہر کلاس روم میں ہٹلر کی تصویر ہونی چاہیے۔ دو ہزار سترہ میں کچھ حکومتی ارکان نے ایک قانون منظور کروانے کی ناکام کوشش کی جس میں نسلی توہین کو قابلِ سزا جرائم کی فہرست سے نکالنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ ایک وزیر نے تو یہ تک کہا کہ لوگوں کو متعصبانہ رائے رکھنے کا حق ہے۔
انیس سو ستانوے میں قائم ہونے والی انتہائی قوم پرست ون نیشن پارٹی ایشیائی تارکینِ وطن کی آسٹریلیا آمد کے شدید خلاف ہے۔ بھارت اور پاکستان کے طلبا کی ایک بڑی تعداد آسٹریلیا میں زیرِ تعلیم ہے۔ انھیں روزمرہ زندگی میں نسلی امتیاز کے جو اعلانیہ و پوشیدہ چیلنج درپیش ہیں وہ اکثر میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔
غیر سفید فام تارکینِ وطن کو یہ بھی شکایت ہے کہ بظاہر آسٹریلیا میں رنگ و نسل و علاقے کی بنیاد پر نقلِ مکانی میں امتیاز غیر قانونی ہے مگر غیر سفید فام تارکینِ وطن کو چھان پھٹک کے لیے آسٹریلوی سرزمین کے بجائے پپوا نیو گنی میں قائم کیمپوں میں غیر انسانی حالات میں لمبے عرصے تک رکھا جاتا ہے۔ ان کیمپوں میں ایک بھی یورپی نژاد تارکِ وطن نہیں پایا جاتا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ آسٹریلیا میں دو سو برس پہلے ان سفید فاموں کو بھیجا گیا جو برطانیہ میں راندہِ درگاہ یا کسی چھوٹے موٹے جرم میں سزا پا چکے تھے۔ گویا آسٹریلیا برطانوی سلطنت کا گورا ”کالا پانی“ تھا۔ پھر جیسے امریکا کے مقامی باشندوں کے ساتھ ہوا ویسے ہی آسٹریلیا کے ایبرجنیز سیاہ فام قبائل کے ساتھ ہوا۔ انھیں نیم انسان نیم جانور سمجھ کر قتلِ عام اور پیچھے دھکیلنے اور وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے کی مہم، مقامی عورتوں سے پیدا ہونے والے سفید فام مردوں کے بچوں کو ان کی ماؤں سے ہزاروں کی تعداد میں چھین کر سرکار نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ نسل چوری کی یہ پالیسی کہیں ساٹھ کی دہائی میں جا کر ختم ہوئی۔
اٹھارہ سو پچاس سے آسٹریلیا نے سفید فام آسٹریلیا کی ریاستی پالیسی اپنائی۔ کیونکہ کھیت مزدوری اور کانکنی کے لیے جب سستے چینی مزدور آسٹریلیا آنے لگے تو سفیدفام ٹریڈ یونینوں نے روزگار پر ڈاکے کا شور مچانا شروع کر دیا۔ انیس سو ایک میں آسٹریلیا فیڈریشن بنا تو غیر سفید فام مزدوروں کے اہلِ خانہ کی ہجرت کی حوصلہ شکنی کے لیے امیگریشن رسٹرکشن ایکٹ نافذ ہوا۔ فیڈریشن کے پہلے وزیرِ اعظم ایڈمنڈ بارٹن اور دوسرے وزیرِ اعظم الفرڈ ڈیکن نسل پرست ”آسٹریلیا نیٹوز ایسوسی ایشن“ کے رکن تھے۔ ایسوسی ایشن کا نعرہ تھا ”سفید آسٹریلیا“۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران وزیرِ اعظم جان کرٹن نے علی الاعلان کہا کہ آسٹریلیا جنوبی بحرالکاہل میں صرف برطانوی النسل معماروں کی آیندہ نسلوں کی آماجگاہ ہے۔
اب یہ باتیں اور پالیسیاں بظاہر تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور انھیں متروک قرار دے دیا گیا ہے۔ مگر ایسی ریاستی پالیسیاں جو دماغ تیار کرتی ہیں انھیں قوانین کی طرح محض ایک دن میں نہیں بدلا جاسکتا۔ یہ پالیسیاں سماجی ڈی این اے کی شکل میں نسل در نسل مختلف شکلیں بدلتی ہوئی سفر کرتی ہیں۔
نیوزی لینڈ میں کل جو ہوا اس کے ڈانڈے صرف اٹھائیس سالہ قاتل سے نہیں بلکہ دو سو برس پرانے تاریخی رویے سے جا ملتے ہیں۔ ایک نسل پالیسیوں کی شکل میں قومی تھان میں جو گرہ ہاتھوں سے لگاتی ہے اسے جانے کتنی نسلیں دانتوں سے کھولتی کھولتی ختم ہو جاتی ہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں کہ آج جو تم بو رہے ہو اسے کل کا سوچ کے بوؤ۔ ورنہ تمہارے بچے تمہارا کیا کرایا فصل در فصل کاٹتے ہی رہ جائیں گے۔
بشکریہ ایکسپریس۔
بشکریہ ایکسپریس۔