بینا گوئندی
”میری مانیں تو بس اس کی سنیں جو سب کی سنتا ہے۔ بے انتہا پیار کرتا ہے مگر اس سے بھی جو اس سے نہیں کرتا مگر وہ کرتا ہے۔ تب ہی تو یہ سلسلہ خیر و شر ایک ہی دنیا میں، ایک ہی آسمان تلے، ایک ہی دربار پرحاضر ہوتے ہیں مگر عطائیں اعمال کے سانچے سے گزار کر رحم وکرم کے دریچے کھول دیتا ہے۔ “ یونس وفا ” نے ایم اے کے سٹوڈینٹس کو ایک پر مغز“ فلسفئہ اخلاقیات ”کا لیکچر اپنے اس جملے پر ختم کیا۔
اس نے سندھ جامشورو یونیورسٹی سے پانچ برس پہلے ایم اے فلسفہ میں ٹاپ کیا جس کی وجہ سے بہت جلد ہی اس کی ادھر لیکچرار کی سلیکشن ہو گئی۔ وہ خواب دیکھتا نہیں، بناتا تھا، تقدیریوں کے اسباب کو دریافت کرتا تھا۔ اسے فائدے اور نقصان کا اصل چہرہ نظر آ رہا تھا۔ وہ پہاڑوں میں راستے بنانے سے بہتر دلوں سے نفرتیں نکال کر محبت کے بیج بونا چاہتا تھا، وہ معاشرے میں ترقی اور خوشحالی کا سفیر تھا۔ وہ شخصی فائدے کا مسافر نہیں تھا۔
مگر یک دم وہ شخص ترقی یافتگان کی صف میں کھڑا ہونے کے لئے اپنی دھرتی سے دور چلا گیا۔ جبکہ وہ مفکر تھا، دانشور تھا، عالم تھا، معلم تھا اور سب سے بڑھ کر اسلام کا دیوانہ تھا۔ روشنی اور نور پھیلانے والا اپنی اس یونیورسٹی کو چھوڑ کر چلا گیا جہاں پر اس کے شاگرد فلسفے کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور انسانیت کے درسوں سے فیض یاب ہوتے تھے۔ وہ سب طلبا اشکبار اور وہ جہاز پر بیٹھ کر ایک تہذیب یافتہ معاشرے کا رکن بننے کے لئے روانہ ہو گیا۔ جہاں پر نا بھوک تھی نا افلاس، نا مارشل لا تھا نا جمہوریت کو خطرہ، ان کا نعرہ عالم مسلمان کا نہیں انسان کا نعرہ، تھا۔ وہ یہاں کس کس کو سکھاتا اور پڑھاتا۔ سوچا ایک آزاد شہری کے طور پر، آزاد ہوا میں اور سچ کی فضا میں اپنے عطا کردہ ذہن کی آبیاری کرے۔
وہ نیک تھا، اس لئے عطا شدہ کی برادری میں شامل ہونا چاہتا تھا، اس کا حق تھا وہ امن شدہ دھرتی کا فرد بنتا کہ وہ امن کا نعرہ لگاتا تھا۔ پندرہ برس علم، سکون اور آشنائی کے سنگ سنگ تنہائی کے ناگ کے زہر کو بھی اپنے اندر محسوس کرتا تھا۔
چند روز سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جو کشیدگی کی صورت حال بنی ہوئی تھی اور جنگ کا خطرہ سرحدوں پر منڈلا رہا تھا۔ ایسی خبریں سن کر یونس کا دم گھٹنے لگتا تھا جب اس کے ہی جسم کے حصے جو اب جدا ہو کر اس پار تھے وہ جنگ کی بات کرتے تو حیران ہوتا کہ بھلے چنگے اپنی اپنی چھتوں کے سائے تلے بیٹھے ہیں آخر کیوں اس ”دشمنی“ کو پالتو جانور سمجھ کر پال رہے تھے جو ان کو تحفے میں امن پسند معاشروں سے ملی تھی۔
اس کو فکرلاحق تھی کہ کیا بنے گا ان دونوں ہمسائیوں کا۔ اب تو دونوں کے پاس ایک دوسرے کو فنا کرنے کا اعلی ترین نظام ہے۔
یہاں پر واشنگٹن میں یونس جو ایک ”آئی وی لیگ“ یونیورسٹی میں پروفیسر تھا اور اس کی بیوی نسرین گورنمنٹ کے ریڈیو اسٹیشن پر کئی برسوں سے کام کر رہی تھی پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ جنگ نما فضا کے اندیشوں کے باعث گذشتہ کئی شاموں سے ان کے سانجھے دوست اپنی اپنی جاب سے فارغ ہونے کے بعد ان کے ہاں اکٹھے ہوتے اور ”نیشنل تھینک ٹینک“ کے پلیٹ فارم پر نفرتوں کو ختم کرنے اور امن کے فروغ کی تجاویز پر غور کر تے تھے۔
جیسے ہی ان دوستوں میں بات چیت کا سلسلہ شروع ہوتا یونس وفا کے ملحقہ گھر سے بلند آواز میں گانوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ چند روز اس چنگھاڑ نما موسیقی کو برداشت کرنے کے بعد یونس نے صبح دفتر جانے سے قبل اپنے ہمسائے ”ولسن“ سے کہا کہ ہو سکے تو ان گانوں کی آواز کو ذرا دھیما کر لیا کریں۔ یہ کہہ کر وہ دفتر روانہ ہو گیا۔ شام پڑے اس کی بیوی نسرین ہمیشہ کی طرح اس روز بھی اپنے شوہر سے پہلے گھر آ کر بھاگم بھاگ چھوٹے موٹے کام نبٹا نے کے ساتھ ساتھ دوستوں کے واسطے چائے کا بندوبست میں مصروف تھی۔
انڈیا اور پاکستان دونوں ہمسایہ ممالک کے دوستوں نے آج ایک خیر سگالی کی پروپوزل بنا کر اپنے اپنے سفارت خانوں میں پیش کرنی تھی۔ کچن کی کھڑکی سے نسرین کو یونس اپنی گاڑی پارک کرتے نظر آئے تو اس نے چائے کی تیاری میں مزید تیزی کر دی۔ اسی اثنا میں اسے دھیمی آواز میں دو دھماکہ نما پٹاخوں کی آواز آئی۔ نسرین ابھی کچھ چونکتی مگر کڑاہی میں پکوڑے ڈالنے میں مصروف ہو گئی کہ تیل تپ چکا تھا۔ جب کچھ دیر تک یونس گھر کے اندر نا آئے تو اس نے آگے بڑھ کر کھڑکی میں نیچے دیکھا تو پھر اس کی زور دار چیخ حلق میں پھنس گئی۔
کھڑکی سے باہر ایک بہت بڑا ظلم ہو گیا تھا ”ولسن“ نے ”یونس“ کے سینے میں دو گولیاں مار کر اس کو نہیں، امن کو خون میں لت پت کر دیا تھا۔ وہ آگ پر تیل کی کڑاہی کو جلتا چھوڑ کر روتی چیختی باہر بھاگی، جہاں بلجیت، رضوان، ارجن، رتیش اور احمد زمین پر گرے خون میں لت پت یونس کے گرد بے بس کھڑے تھے مگر شوبھنا اپنی چنی کے پلو سے اس کے چہرے سے خون کے چھینٹے صاف کر رہی تھی۔ یونس کی کلائی پر شو بھنا کا باندھا ہوا راکھی کا دھاگہ بھی اس کے سرخ خون سے سرخ ہو چکا تھا۔
”نائن ون ون“ کے آنے تک یونس مر چکا تھا مگر جاتے جاتے امن کو زندگی بخش گیا۔
اور یہ ہی اس کی پرو پوزل کا عنوان تھا ”ہمسائے سے محبت کرنا قرض نہیں، فرض ہے“