چھبیس سالہ محمد احمد طارق نے اپنے موبائل میں مختلف گانیں سننے کے لیے مختلف ایپس ڈاؤن لوڈ کی ہوئی ہیں جن کی وہ آن لائن رقم بھی ادا کرتے ہیں۔ کئی ایسی ایپ استعمال کرنے کے لیے ان کو اپنے بینک کے کارڈ کا بھی استعمال کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ایک دن رقم ادا کرتے ہوئے انھیں بتایا گیا کہ یہ پورا عمل ’حرام‘ ہے۔
اسی طرح جب احمد نے میوزک ڈاؤن لوڈ کرنے والی ایک موبائل ایپ ’ڈِیزر‘ کو رقم کی ادائیگی کے لیے اپنا بینک کارڈ استعمال کیا تو ان کی پیمنٹ رُک گئی۔ جب انھوں نے میزان بینک کو فون ملایا تو ترجمان نے ان کو بتایا کہ بینک اس معاملے پر کام کر رہا ہے لیکن ’اگر آپ کا معاملہ فلمیں دیکھنے والی ایپ نیٹفلکس کی رقم کی ادائیگی کی وجہ سے رُکا ہوا ہے تو وہ پورا نہیں ہو پائے گا کیونکہ ہمارے بینک کا کارڈ نیٹفلکس کے لیے استعمال نہیں ہوسکتا۔ یہ ہماری شریعہ پالیسی کے خلاف ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
اوباما ٹی وی پروگرام اور فلمز بنائیں گے
'عرفان صاحب نیل پالش اسلام میں حرام ہے'
’شوٹنگ کرتے تھے تو لوگ حرام حرام کہتے تھے‘
دس چیزیں جن سے ہم گذشتہ ہفتے لاعلم تھے
اس بارے میں احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ایک تو میں نے اتنی اطلاع مانگی نہیں تھی جتنی مجھے بینک فون کرنے پر مل گئی۔ میرے ذہن میں نہیں تھا کہ نیٹفلکس کو رقم کی ادائیگی ایک بینک اس وجہ سے روک دے گا کہ اسے غیر اسلامی سمجھا جاتا ہے۔‘
احمد نے بینک سے بات کرنے کے فوراً بعد سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر بینک کے نام سمیت پوسٹ لکھ کر ٹویٹ کردی جس کو بہت لوگوں نے پڑھا اور دوسروں کو مطلع کرنے کے لیے آگے بھی بڑھایا۔
نیٹفلکس بین الاقوامی سٹریمنگ سروس ہے جس کے دنیا بھر میں 148 ملین دیکھنے والے ہیں۔ جب نیٹفلکس پاکستان میں لانچ کیا گیا تھا تب مقامی سطح پر زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ پاکستان میں بننے والی فلموں اور ڈراموں کو اس پلیٹ فارم پر جگہ ملے گی۔
پاکستان میں اس کے دیکھنے والوں کا اندازہ گُوگل ٹریندز سے لگایا جاسکتا ہے۔ ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق ’پاکستان میں نیٹفلکس کی لانچ کے بعد اس کو سرچ کرنے والوں کی تعداد میں 73 فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘
اس سے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بینک مذہب کے نام پر ایسی سروس کو نظر انداز کرسکتے ہیں؟
جب بی بی سی نے میزان بینک کے کال سینٹر سے پوچھا تو انھوں نے اس بات کی تصدیق کی۔ لیکن مزید کہا کہ یہ تمام فیصلے بینک کی ’شریعہ کونسل‘ کے تحت ہوتے ہیں۔
میزان بینک کے علاوہ ملک کے جتنے بھی ’اسلامی‘ بینک ہیں وہ لائسنس یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ شریعت کے مطابق ہدایات پر بھی عمل کرتے ہیں۔ اسی حوالے سے ان سب بینکوں نے اپنے شرعی بورڈ میں علما کرام کو بھی شامل کیا ہوا ہے۔
یہ ماہرین بینک کے ڈیبٹ کارڈ کے استعمال کے بارے میں ہدایت نامہ جاری کرتے ہیں اور جن باتوں کو یہ غلط کہتے ہیں ان کے لیے ادائیگی نہیں ہو سکتی مثلاً جوا، شراب اور سینما گھر کا ٹکٹ وغیرہ۔ سبھی بینک ان ہدایات کو اپنی اپنی پالیسی کے تحت استعمال کرتے ہیں۔ نیٹفلکس کو اسی زمرے میں شامل کیا گیا ہے۔
احمد اب دوسرے بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ’یہ بینک کے اپنے لیے غلط ہے۔ میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ میزان بینک کسٹمر سروس میں سب سے اچھا ہے، لیکن ان کو وقت کے ساتھ اپنی پالیسی کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔‘