اس سال کے شروع میں سابق ورلڈ نمبر ون ٹینس سٹار بورس بیکر اپنی ٹرافیوں کی نیلامی کے خلاف ایک کیس ہار گئے۔
یہ کیس ان کے کیرئیر میں جیتی ہوئی ٹرافیوں کی نیلامی کے متعلق تھا۔ کیس ہارنے کے بعد اب گیارہ جولائی کو ان کے اعزازات، جن کی مالیت ڈھائی لاکھ ڈالر ہے، لندن میں نیلام کر دیے جائیں گے۔ یہ سب ان کے 80 ملین ڈالر کے قرض کی ادائیگی کے لیے کیا جارہا ہے۔
ریٹائرمنٹ
لیکن بیکر وہ پہلے چیمپیئن نہیں جو مالی مشکلات کا شکار ہوئے ہوں۔ لیجینڈری فٹبالر میراڈونا، باکسر مائیک ٹائسن اور گالف کے کھلاڑی جان ڈیلی چند ایسے نام ہیں جنھوں نے اپنے کیریر کے دوران خوب پیسہ کمایا لیکن بعد میں یہ سب شدید مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔
ان سب کھلاڑیوں میں ایک چیز مشترک ہے: ریٹائرمنٹ۔
ایک کھلاڑی کی زندگی میں ایک کھلاڑی کی زندگی سے عام زندگی تک کا سفر بہت نازک ہوتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ ان کی آمدنی پر بھی بہت زیادہ اثر ڈالتا ہے۔
2009 میں سپورٹس السٹریٹڈ نامی ایک میگیزین کی ایک رپورٹ کے مطابق 60 فیصد باسکٹ بال کھیلنے والے کھلاڑی ریٹائر ہونے کے پانچ سال کے اندر اندر دوالیہ ہوجاتے ہیں۔
امیریکن فٹبال کھیلنے والے کھلاڑیوں میں یہ شرح بدتر ہے۔ این ایف ایل کھیلنے والے 80 فیصد کھلاڑی دو سال کے اندر دیوالیہ ہوجاتے ہیں۔
انگلینڈ میں سابق کھلاڑیوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والے ادارے ایکس پرو نے 2013 میں ایک رپورٹ میں کہا کہ انگلش پریمیئر لیگ کھیلنے والے تین میں سے پانچ فٹبالر پانچ سال کے اندر شدید مالی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں تاہم پروفیشنل فٹبالر ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ یہ شرح دس سے بیس فیصد کے درمیان ہے۔
یہ حیران کن بات ہے کہ پریمئیر لیگ جیسی منافع بخش لیگ میں کھلاڑیوں کو کیریر ختم ہونے کے بعد دیوالہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ انگلش پریمئیر لیگ میں کھیلنے والے فٹبالرز کی اوسط آمدن ساڑھے تین ملین ڈالر سے زیادہ ہے۔
لیکن کچھ ایسے کھلاڑی بھی ہیں جو کہ ریٹائرمنٹ سے پہلے ہی مالی مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ نارویجین ڈیفینڈر جان رائز 2005 میں چیمپیئنز لیگ جیتنے والی لیورپول ٹیم کا حصہ تھے۔ 2007 میں انھوں نے ایک برطانوی عدالت میں خود کو دیوالیہ قرار دے دیا۔ اس وقت وہ ایک ہفتے کے 62 ہزار ڈالر کما رہے تھے۔
لیکن تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایسے حالات پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
کرس ڈلالی سابق امریکی باسکٹ بال کھلاڑی ہیں، اب وہ مالی معاملات میں کھلاڑیوں کی مدد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ جیسے جیسے کھلاڑیوں کی آمدن میں اضافہ ہورہا ہے ویسے ویسے ان کی دولت پر نظر رکھنے اور ان کی شہرت سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔
’میں نے اپنے 16 سالہ کیریر ریٹائر ہونے والے بہت سے کھلاڑیوں کو اپنی دولت مالی سکیموں، جعل سازی اور بے ایمان مالی مشیروں کے ہاتھ ضائع کرتے دیکھا ہے'۔
وہ کہتے ہیں کہ مالی مشلات سب کے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں، لیکن سابق کھلاڑیوں کی صورت میں یہ اس لیے خطرناک ہے کیونکہ عام آدمی کے مقابلے میں ان کے پاس پیسے کمانے کا وقت بہت محدود ہوتا ہے اور یہ کبھی بھی کسی حادثے کی وجہ سے یا ان فٹ ہونے کے صورت میں ختم ہوسکتا ہے۔
ریٹائر ہونے کے بعد سابق کھلاڑیوں کا میڈیا شخصیت یا کامینٹیٹر بننا اتنا آسان نہیں ہوتا۔
اس شعبے میں جانے کے لیے بہت سے کھلاڑی اس لیے اہل یا مناسب نہیں ہوتے کیونکہ زیادہ تر کھلاڑیوں کے پاس اس طرح کی تعلیمی قابلیت نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر برازیل میں زیادہ تر فٹبالر سکول بھی ختم نہیں کر پاتے۔ جیسا کہ نیمار۔ دنیا میں آج کے پانچ بڑے فٹبالروں میں شمار کیے جانے والے برازیلی سُپر سٹار نیمار نے اپنا سکول ختم کرنے سے پہلے ہی پروفیشنل فٹبال کھیلنا شروع کر دیا تھا۔
منشیات، طلاقیں اور جیل
ذاتی مسائل بھی مالی مشکلات کی وجہ بنتے ہیں۔ کھلاڑی زیادہ تر منشیات کے عادی بھی ہوجاتے ہیں اور جوئے کی لت بھی بہت سے کھلاڑیوں کے مسائل میں مشترکہ عنصر دیکھا گیا ہے۔
منشیات کے عادی ہونے کے بعد میراڈونا کی مالی مشلات میں نا صرف اضافہ ہوا بلکہ اس عادت نے انھیں دیوالیہ بھی کردیا۔ جبکہ مائیک ٹائسن کو دو بار ریپ اور تشدد کے جرم میں جیل ہوئی جس کے بعد 2003 میں وہ مالی طور پر مکمل تباہ ہوگئے۔
جبکہ بورس بیکر طلاقوں کی زد میں آئے اور ان کا زیادہ تر پیسہ ان کی بیویوں کے حصے میں چلا گیا۔