قرة العين يوسف
ہم لوگ اللہ کی ناراضگی کو کتنا معمولی سمجھتے ہیں۔ ہم اس دو جہانوں کے رب کو عام سا سمجھنے کا گناہ کتنی آسانی سے کر لیتے ہیں۔ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کو ناراض نہ کرنے کے لئے اللہ کو ناراض کر دیتے ہیں۔ اُس رب کو جس کی رحمت کی اگر کوئی حد نہیں ہے تو اس کے غصے اور قہر کا بھی کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ پر پھر بھی ہم میں کیسے اتنی ہمت آجاتی ہے کہ ہم مٹی کے بنے انسانوں کے غصے سے ڈرتے ہیں مگر اس لافانی رب سے نہیں ڈرتے۔
کیوں ہم اللہ کے بتائے ہوئے رستے کو چنتے ہوئے خوف اور ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں جبکہ لوگوں کے متعین کئیے ہوئے رستوں کو ہم آرام سے چن لیتے ہیں۔ ہم کیوں دنیا کو دکھلانے کے لئے خود کو اچھا ظاہر کرنے کے لئے اللہ کے بنائے ہوئے قاعدے قانون توڑ دیتے ہیں؟ ہم کیوں اپنی ناقص عقل سے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ معاملات کو احسن طریقے سے نبٹانے کے اصول بہت عرصہ پہلے ہمیں بتا دیے گئے تھے۔
ایک دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ ان کے ایک جاننے والے کو ایک لڑکی پسند آگئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بات پسندیدگی سے بڑھ کر محبت تک جا پہنچی۔ محبت کو ایک با عزت تعلق کا نام دینے کے لئے نکاح کا سوچا گیا مگر چونکہ ہمارے ہاں ایسے فیصلے کے لئے لڑکے اور لڑکی کے علاوہ پورے خاندان اور محلے والوں کا راضی ہونا بھی ضروری ہوتا ہے اس لئے اس فیصلے کا کوئی خاطر خواہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ لڑکا اور لڑکی دونوں برسرِ روزگار ہیں، بالغ ہیں، دونوں ہی مسلمان ہیں اور جو بڑی وجہ کہ دونوں کے درمیان محبت بھی ہے اس کے باوجود انہیں آپس میں نکاح کرنے کی اجازت نہیں دی گئی صرف اس بات کو وجہ بنا کر کہ لوگ کیا کہیں گے؟
خیر وقت گزرتا گیا لیکن اس گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ جذبات سرد نہ پڑ سکے۔ مرد اور عورت کے درمیان کشش فطری ہے اس کشش کو کم تو کیا جا سکتا ہے لیکن مکمل ختم نہیں کیا جا سکتا۔ اور جب مرد و عورت کے دل میں ایک دوسرے کے لئے پسندیدگی بھی ہو تو یہ کشش تو کششِ ثقل سے بھی زیادہ ہوتی ہے۔ سو ہوا یہ کہ جن کو نکاح نے قریب لانا تھا ایک حلال تعلق کی بنیاد رکھنی تھی وہ نکاح نہ ہونے کی وجہ سے ایک حرام تعلق قائم کر بیٹھے۔
قصور وار کون ہے؟ وہ دونوں یا ان کے گھر والے؟ اللہ نے تو نکاح کا حکم دیا تھا اور نہ صرف حکم دیا بلکہ آسان رستہ بھی بتایا۔ قرآن مجید کی ایک آیت ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے ہے کہ جو عورتیں تمہیں پسند ہوں ان سے نکاح کرلو۔ اور چونکہ مرد اور عورت کی فطرت میں بہت فرق ہے اس لئے مرد اگر صاحبِ استطاعت ہے اور انصاف پسند بھی تو بیک وقت چار عورتیں بھی نکاح میں رکھ سکتا ہے۔
لیکن ہم نے آج کل نکاح کو نکاح رہنے ہی نہیں دیا اسے ایک ایگریمنٹ بنا لیا ہے جو دو خاندانوں کے درمیان کیا جاتا ہے۔ جس کی شرائط میں گاڑی، بنگلہ، زیورات اور بہت سارا بینک بیلنس ہونا چاہیے اور اس کے ساتھ ساتھ شادی خاندان میں ہی ہونی چاہیے کہ اس سے خون میں ملاوٹ نہیں ہوتی۔ تو اس نمودو نمائش کو برقرار رکھنے کے لئے ہمیں اپنی آخرت خراب کرنا تو قبول ہے مگر دنیا نہیں۔ اسی طرح انسان ایسے ایسے گناہ کر جاتا ہے کہ خود گناہ کرنے والے کو بھی احساس نہیں ہوتا کہ یہ گناہ ہے۔
بغیر نکاح کے پیدا ہونے والے بچوں کا مجرم کون ہے ان کے ماں باپ یا ان کا نکاح نہ کرنے والے ان کے بڑے۔ بچے کو پیدا ہونے سے پہلے ہی مارنے کا گناہ کس کے سر جاتا ہے؟ اس لڑکی کے یا اس لڑکے کے جو اسے مختلف حیلوں بہانوں سے ٹالتا رہتا ہے؟ وہ لڑکا اس سے چوری چھپے محبت کے وعدے تو کرسکتا ہے مگر اسے سب کے سامنے اپنی عزت بنانے سے کیوں ڈرتا ہے؟ اور اس عزت کو قائم رکھنے کے لئے کتنی آسانی سے اللہ کی حدود توڑ دی جاتی ہیں۔
کیا لوگوں کی ناراضگی اللہ کی ناراضگی سے بڑھ کر ہے؟ ایسے واقعات اور ان سے ملتے جلتے کتنے ہی ایسے دکھ ہیں جو ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں۔ اور ایسا نہیں ہے کہ ہم ان سے آگاہ نہیں ہیں۔ ہم آگاہ ہیں ہمیں پتہ ہے کہ یہ کیوں ہوتے ہیں لیکن ہم کبوتر کی طرح آنکھیں موندھے بیٹھے ہیں۔ ہم خود کو تسلی دیتے ہیں کہ یہ ہمارے گھر کا واقعہ نہیں لیکن حقیقت میں ہم بھی اسی دلدل میں ہیں اگر دھنسے نہیں ہیں تو کنارے پر ضرور ہیں۔