پروفیسر جمیل چوہدری
مغربی تہذیب کو مثبت اور منفی پہلوؤں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، اس کے مثبت پہلوؤں کا ذکر اکثر تحریروں میں ہوتا رہتا ہے۔ آج اس تہذیب جدید کے دوسرے اور بھیانک رُخ کا ذکر کرتے ہیں۔ قدیم تاریخ اور موجودہ مغربی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک سفاک تہذیب ہے، انسانیت کی سب سے بڑی قاتل ہے، تاتاریوں نے بھی اتنے لوگوں کوقتل نہیں کیا جتنے اس مغربی تہذیب کے ہاتھوں مارے گئے۔ یورپ کی اپنی قوموں کے درمیان مذہبی اور نسلی بنیادوں پر لڑی گئی دہائیوں پر مشتمل جنگیں ہوتی رہیں یہاں لاکھوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے۔
جرمن اور روس کی جنگ بھی بے شمار لوگوں کو نگل گئی، تحریک اصلاح کے بعد پروٹیٹنٹ اور کتھیولک لڑائیاں بڑی معروف ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں 2 کروڑ لوگ لقمہ اجل بنے اور دوسری جنگ عظیم میں 10 کروڑ لوگوں کا خاتمہ ہوا۔ یہ دونوں جنگیں مغرب نے ہی شروع کی تھیں۔ کولمبس کے دریافت کے بعد شمالی امریکہ کے قدیم باشندوں کو وحشیانہ انداز سے ختم کیا گیا اور ایسے ہی کچھ سالوں بعد جنوبی امریکہ اور آسٹریلیا کے باشندوں کے ساتھ ہوا۔
یہاں کے قدیم باشندوں اور ان کی تہذیبی باقیات کو اب صرف میوزیم میں ہی دیکھا جاسکتا ہے۔ ان تینوں براعظموں میں کروڑوں قدیم لوگ آباد تھے لیکن ہوس علاقہ اورو سائل نے ان کا نام و نشان مٹادیا۔ یہاں سے لوٹ مار کے بعد جب یورپ دولت مند ہوگیا اور نئے ہتھیار بنالیے تو پھر قدیم مشرق کی طرف اس کا رُخ ہوگیا۔ ایشیاء اور افریقہ میں مارے گئے لوگوں کی تفصیل تو ایک علیحدہ کتاب میں ہی بیان کی جاسکتی ہے۔ دور جدید میں افغانستان، عراق، شام اور لیبیاء میں وہی تباہی ہمارے سامنے ہورہی ہے۔
یہاں کی آبادیاں یا تو ماری گئیں یا ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئیں۔ ماہرین نے اس تمام بربادی کا اندازہ ایک ارب انسانوں کا لگایا ہے۔ سفاکیت کا دوسرا مظاہرہ مغربی سرمایہ دار خوراک کے نرخ بڑھا کرکرتے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2008 ء میں مغرب خصوصاً امریکہ میں سب سے زیادہ غلہ اور دیگر خوردنی اشیاء پیدا ہوئیں لیکن المیہ یہ تھا کہ لوگوں کے پاس خریدنے کے لیے پیسے نہ تھے۔ ایک رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ بیسویں صدی کے آخر میں 70 لاکھ لوگ صرف بھوک سے مر گئے اور اب بھی تمام دنیا میں خوراک کے نرخ بہت بلند ہیں۔
اس کی وجہ خوراک کی رسدنہ ہے بلکہ غلہ فروخت کرنے والے سرمایہ داروں کا نفع کالالچ ہے وہ ان بنیادی ضروری اشیاء کے نرخ عوام کی قوت خرید کے برابر لانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اکثر اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ زائد غلے کواٹھا کر سمندر برد کردیتے ہیں اس کے نرخ کم نہیں کرتے۔ تاریخ قدیم کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ گزشتہ 17 تہذیبوں میں لوگ کبھی بھوک سے نہ مرے تھے، ہرایک انسان اور قوم کو کھانے پینے کی اشیاء آسانی سے میسر تھیں اس وقت بھی ماہرین بتاتے ہیں کہ بھوکے لوگوں کی تعداد دنیا میں 10 کروڑ کے قریب ہے اور یہ تعداد منجمد نہیں ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی ہے ایسے لوگوں کی تعداد ایشیاء اور افریقہ میں سب سے زیادہ ہے۔ ترقی یافتہ دنیا میں بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں پائے جاتے ہیں یہ سرمایہ داروں نے پیدا کررکھی ہے۔ سرمایہ دار صرف ایک ہی کام جانتے ہیں وہ ہے زیادہ سے زیادہ نفع کمانا۔ ان کا اس سے تعلق ہی نہیں ہوتا کہ اردگرد کے علاقے میں لوگ بھوک سے تڑپ رہے ہیں۔ سرمایہ داری نے اس کے سب سے بڑی وکیل کے گھر میں مسائل پیدا کردیتے ہیں۔ امریکہ کے 80 %وسائل وہاں کی صرف ایک فیصد آبادی کے پاس آچکے ہیں۔ امریکہ کے غریب کچھ بھی نہیں کرسکتے کیونکہ ظاہراً امریکہ میں جمہوری نظام ہے اور اپنے نمائندے منتخب کرنے کا اختیار ہے لیکن حکومتوں کے تبدیل ہونے کے باوجود وہاں غریبوں کے حالات جوں کے توں رہتے ہیں۔
مغربی تہذیب کی سفاکیت کا اظہار خطرناک ترین اسلحہ کے ایجاد سے بھی ہوتا ہے، مغرب والوں نے فاسفورس بم ایجاد کیا جس کی لگائی گئی آگ پانی سے بھی نہیں بجھتی۔ جدید مغربی انسان نے حیاتیاتی جراثیموں پر مبنی ہتھیاروں، جوہری بمبوں اور بیشمار قسم کے اسلحہ کے ذخائراتنی بڑی تعداد میں جمع کرلیے ہیں کہ ان سے موجودہ 7 ارب پر مشتمل دنیا کوکئی دفعہ تباہ کیا جاسکتا ہے۔ ناگاساکی اور ہیروشیما کے مناظرذہن میں آتے ہی جسم پر کپکپی طاری ہوجاتی ہے۔
یہ جوہری بم تو ابتدائی دور کے تھے موجودہ ہیڈروجن اور نائڑوجن بموں کے سامنے تو پورا کرۃ ارض چند لمحوں کی مار ہے۔ ایسے خطرناک ہتھیاروں کو جان کر معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ نے کہا تھا کہ اب یہ کرۂ ارض انسان جیسی اعلیٰ مخلوق کے رہنے کے قابل نہیں رہا، اسے کسی اور سیارہ پر منتقل ہوجانا چاہیے۔ اگر جوہری ہتھیار مشرق کے کچھ ممالک نے بنائے ہیں تو وہ صرف مغرب کے حملے کے توڑ کے لیے بنائے ہیں اور بہت دیر بعد بنائے ہیں۔
اب مغربی تہذیب کی ایک اور گھناؤنی صورت حال کا ذکر کرتے ہیں۔ اس صورت حال نے قدیم زمانے سے چلے آنے والے اخلاقی اور وحی پر مبنی تمام اصولوں کا خاتمہ کردیا ہے، انسانی تعلقات اور رشتے اشیاء جیسی کم اہم صورت میں بدل رہے ہیں۔ صرف سرمایہ ہی سب سے اہم قدر رہ گیا ہے، ہرشے اسی پر جانچی جارہی ہے، باپ، بیٹی، بہو، ساس، سالی اور پوتی سے جنسی تعلقات قائم کررہا ہے۔ ماں، بیٹے اور نواسے سے منہ کالا کررہی ہے۔ مغرب میں محرمات سے جبراً جنسی تعلقات ایک عام بات ہے، یہ آزادی کی قدر کا نتیجہ ہے، یہاں مساوات کے فلسفے کے تحت سب برابر ہیں۔
کسی سے بھی جنسی تعلقات میں فرق نہیں۔ ان باتوں کی تفصیل لکھتے وقت تو ہمارے قلم کو بھی شرم آتی ہے لیکن مغربی تہذیب کے گن گانے والوں کے لیے کچھ اشارات ضروری بھی ہیں۔ اجنبی عورت سے تعلق قائم کرنے کی زحمت اٹھانے، خطرناک جنسی بیماریاں، سمیٹنے اور نازبرداری کے لیے پیسے خرچ کرنے کی بجائے گھر میں میسرانواع واقسام کی جنسی نعمتوں سے کیوں استفادہ نہ کیا جائے۔ ؟ عورت، عورت سے شادی کررہی ہے، مرد اور مرد کے قانونی جوڑے بن رہے ہیں۔
ہم تو امریکہ کی سپریم کورٹ کے اعلیٰ بزرگ قانونی ماہرین کے فیصلے پر حیران ہیں جنہوں نے ہم جنس پرستی پر مشتمل شادیوں کو قانونی جواذ فراہم کردیا۔ ایک پورا سال سوچ وبچار کے بعد بھی انہوں نے انسانیت دشمن فیصلہ ہی سنایا۔ بچے پیدا کرکے سڑکوں پر پھینکے جارہے ہیں، دوسری شادی قانوناً ممنوع ہے لیکن سینکڑوں عورتوں سے ناجائز تعلقات رضامندی سے رکھے جائیں تو یہ بالکل درست ہے۔ مغرب میں کسی شوہر یا بیوی کا ایک دوسرے سے حق زوجیت کی ادائیگی کے لیے ہلکا پھلکا جبربہت بڑا ظلم اور ناقابل معافی جرم ہے، یہ جرمMarital Rapeکہلاتا ہے جس کی سزا بہت سخت ہے اور بعض ممالک میں سزا سات سال تک قید ہے۔
نکاح شدہ زانی اور زانیہ کے جرم زنا کی اصطلاح مغرب میں Spousal Rapeکہلاتاہے یہ وہ مغرب ہے جہاں بغیرنکاح ناجائز تعلقات آزادی، لذت اور مزہ کو بنیادی حق قراردیا گیا ہے۔ یہ آزادی کی انتہا ہے، دوسری جانب شرپسندی کا یہ عالم کہ اگر کوئی شادی شدہ اپنی خواہش نفس جائز طریقہ سے پوری کرنے کے لیے اپنے جیون ساتھی کی مرضی کا خیال نہ رکھے تو اسے Rapeیعنی زنا کہا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ زنا، آزادی، بنیادی مساوات اور جسم میری ملکیت سے اخذ کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مغرب میں نکاح کے بغیرزنا کاری آسان ترین بن چکی ہے۔
مگر نکاح کے بعد ازدواجی تعلقات مشکل ترین ہوچکے ہیں۔ تاریخ انسانی میں ایسی ذلیل ترین تہذیب کبھی پیدا نہیں ہوئی جس نے نکاح کے ادارے کو اس طرح برباد کیا ہو۔ اس لیے ردعمل میں مغرب عورتوں اور مردوں نے شادی کرنا ترک کردیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک شادی کا مطلب مصیبت، آفت اور قانون کی پابندی کے سوا کچھ نہیں۔ اب مغرب میں خاندان کا ادارہ تباہ ہوگیا ہے، اب ملکوں اور قوموں کے آزاد مرد اور عورتوں کا کسی قبیلے اور خاندان سے کوئی تعلق نہیں۔
ہرفرد ہرلحاظ سے آزاد ہے وہ جنسی بھوک مٹانے کے لیے جس کے پاس جانا چاہے چلا جائے اس کو پوچھنے والا اس کرۃ ارض پرکوئی نہیں۔ کوئی کسی کی آزادی میں مداخلت نہیں کرسکتا، نہ شوہر بیوی کی، نہ باپ بیٹی کی، نہ ماں بیٹے کی حتیٰ کہ آپ اپنے چھوٹے بچے کی مرضی اور ارادے کے خلاف کوئی کام نہیں کرسکتے۔ آپ کے علاوہ دوسرا جو بھی ہے وہ ایک الگ وجود ہے اس کی اپنی ذاتی زندگی ہے جسے بنیادی حقوق کے فلسفے کے تحت آپ کی دستبرد، رسائی، اثراندازی اور جبرسے محفوظ کردیا گیا ہے۔
مغربی لوگوں کے نزدیک دنیا کے تمام ماں، باپ اور بزرگ بلاتفریق جابرہوتے ہیں۔ لہٰذا بچوں کو بھی اس سے محفوظ کردیا گیا ہے، دوسرے لفظوں میں پرائیویٹ لائف کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ اپنی خلوت اور جلوت میں جو چاہیں کریں بشرطیکہ یہ آزادی دوسروں کی آزادی میں حائل نہ ہو اور سرمایہ دارا نہ عقائد سے متصادم نہ ہو۔ آپ کی ذاتی زندگی میں آپ کی بیوی، بچے اور گھروالے دیگرافراد شامل نہیں ہیں۔ آپ کے سواجوکوئی ہے وہOtherہے، اسی کا نام انفرادیت پرستی ہے۔
مغرب میں آزادی صرف فرد کی ہے کسی اجتماعیت، گروہ اور قبیلے کی نہیں ہوتی۔ اس آزادی کے سامنے خاندان جیسا مقدم اور قدیم ادارہ بھی پاش پاش ہوچکا ہے۔ اگر آپ بچے، بیوی اور شوہر کی آزادی میں مداخلت کریں گے یعنی اس کی غیراخلاقی سرگرمیوں پر روک ٹوک کریں یا پابندیاں عائد کریں تو یہ مغرب میں قابل دست اندازی جرم ہے، جس میں قید اور جرمانے کی سزائیں شامل ہیں۔ بنیادی حقوق میں مذہبی آزادی کو تحفظ دیا گیا ہے لیکن اجتماعی طور پر نہیں۔
صرف ہر فرد کی مذہبی آزادی جو اس طرح روبہ عمل آئے کہ دوسرے کے مذہبی جذبات مجروح نہ ہوں۔ جس طرح فرانس میں کرپان، پگڑی اور سکارف پر اس لیے پابندی لگائی گئی کہ دوسروں کی آزادی متاثر نہ ہو اس فلسفے کی وسعت کے بعد مذہبی عبادت گاہوں کا طرز تعمیر بھی تبدیل کردیا گیا۔ اوپر درج کردہ زناکی رنگارنگ اقسام سات ہزار سالہ انسانی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی، آزادی کی راہ میں جو جذبہ، رویہ، طریقہ قانون، شریعت، وحی یا روایت حائل ہوگی اس کو ختم کرنا فلسفہ آزادی کے تحت لازمی فریضہ ہے۔ مغرب میں اب ایسے لٹریچر کا سیلاب آیا ہوا ہے جس کے نام Rape in marriageاورLicense to rapeہے
سفاکیت کے ساتھ ساتھ یہ مغرب کی تہذیب کا گھناؤنا اور ننگا چہرہ ہے اس کی صرف چند جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔ کیاہم مسلمان اپنے علاقوں میں اس ننگی اور سفاک تہذیب کو دیکھنا پسند کریں گے، ایسی تہذیب کے حق میں لبرل لوگوں کا باتیں کرنا درست نہ ہے، مغرب ایسی سفاک، گھناؤنی اور ننگی تہذیب کی وجہ سے تیزی سے زوال کی طرف بڑھ رہا ہے اس لیے مسلمانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیے۔