انڈیا میں تین طلاق سے متعلق بِل لوک سبھا کے بعد اب راجیہ سبھا میں بھی منظور کر لیا گیا۔اس بل کے حق میں 99 جبکہ مخالفت میں 84 ووٹ پڑے۔
تین طلاق جرم: انڈین کابینہ کی جانب سے منظوری
انڈیا: سپریم کورٹ نے ’تین طلاق‘ کو غیر آئینی قرار دے دیا
’تین بار طلاق کہہ کر طلاق دینے والوں کو سال قید کی سزا‘
لوک سبھا سے منظوری کے بعد مودی حکومت کے لیے اس بل کو ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا سے منظور کروانا کافی مشکل کام تھا۔لیکن کچھ سیاسی پارٹیوں کے واک آوٹ کے بعد راجیہ سبھا میں اس کی منظوری آسان ہو گئی تھی۔اب اس بل کو منظوری کے لیے صدر جمہوریہ کے پاس بھیجا جائے گا۔
ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے اس موقع پر ٹوئٹ کرتے ہوئے لکھا ‘فرسودہ اور دقیانوسی روایت کو آج آخر کار جڑ سے اکھاڑ کر تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا گیا۔ انڈین پارلیمان نے تین طلاق کو ختم کر کے مسلم خواتین کے ساتھ ہونے والی تاریخی غلطی کو سدھار دیا ہے’
بل پر بحث کے دوران وزیر قانون روی شنکر پرساد نے اس قانون کو خواتین کے وقار کے لیے اہم قراد دیا۔بل پر بحث کے دوران این سی پی کے رہنما مجید میمن کا کہنا تھا اس بل میں شوہر تو تین سال کی سزا کی دفع ختم کی جائے۔
2017 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے ایک اکثریتی فیصلے میں مسلمانوں میں ایک ساتھ تین طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دیدیا تھا ۔اور حکومت کو اس سلسلے میں نیا قانون بنانے کا حکم دیا تھا۔
اس اہم معاملے کی سماعت چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر کی سربراہی میں پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے جن میں سے تین ججوں نے تین طلاقوں کو غیر آئینی قرار دیا جبکہ دو ججوں نے اس کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے حکومت سے کہا تھا کہ وہ اس بارے میں قانون بنائے۔
تو جب یہ آرڈیننس پہلے سے موجود تھا تو اب اس بل کی منظوری کے بعد کیا کچھ بدلے گا اس بارے میں ۔۔۔۔۔۔ زینب سکندر کا کہنا ہے کہ اب حکومت نے اسے ایک فوجداری جرم قرار دیدیا ہے کہ اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی نشست میں تین بار طلاق کہہ کر شادی ختم کرنے کی کوشش کرے گا اسےانڈین پینل کوڈ کے تحت گرفتار کر کے تین سال قید تک کی سزا ہو سکتی ہے اور یہی چیز اسے متنازع بناتی ہے۔
زینب سکندر کا یہ بھی کہنا تھا کہ مسلمان مردوں کے خلاف اس قانون کا غلط استعمال ہونے کے بھی اندیشے ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
راجیہ سبھا میں اس بل پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کانگریس کے سینئیر رہنما غلام نبی آزاد نے بھی خدشہ ظاہر کیا تھا کہ ‘اس بل کا اصل مقصد مسلم خواتین کو انکے حقوق دلوانہ نہیں بلکہ کچھ اور ہے’۔ انکا کہنا تھا کہ یہ قانون سیاسیمقاصد کا حاصل کرنے کے لیے نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ اقلیتی فرقے کے لوگ آپس میں ہی الجھے رہیں ، میاں بیوی ایک دوسرے کے خلاف عدالت میں کھڑے ہوں، وکیلوں کی فیس دینے کے لیے زیم جائیداد فروخت ہو اور پھر جیل سے باہر آکر وہ ذہنی اور مالی مشکلات سے دوچار رہیں’۔