ثاقب راٹھور
میں اپنے دفتر بیٹھا تھا کہ اچانک میرے ایک دیرینہ دوست تشریف لائے میری ان کے ساتھ ایک سال بعد ملاقات ہو رہی تھی باتوں اور شکل سے کچھ الجھے الجھے لگ رہے تھے اداس بھی تھے۔ آواز بھری بھری ہوئی تھی۔ میرے پوچھنے پر باتوں کا ایک سلسلہ چل نکلا اپنے دکھ بھری داستان سنانے لگے۔ کہتے ہیں کہ میری شریک حیات گزشتہ سال اس دار فانی سے کوچ کر گئی ہیں ان کے جانے کے بعد میں خود کو سنبھال نہیں پا رہا۔ میرا کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا ہر وقت ان کی یادوں میں کھویا رہتا ہوں۔
کھانے پینے سے دل اچاٹ ہو گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کے دنیا ہی اجڑ گئی ہے۔ مرحومہ اپنے ساتھ میری خوشیاں میرا چین سب کچھ لے گئی ہیں۔ میں نے اپنا گھر چھوڑ دیا ہے اپنے ہی گاؤں کے بازار میں ایک کمرہ کرائے پر لے لیا ہے اور اپنے زندگی کے دن پورے کر رہا ہوں۔ اگر میں گھر جاتا ہوں تو وہ ہی گھر جو ہم دونوں نے بڑی محنت سے بنایا تھا کھانے کو دوڑتا ہے۔ مرحومہ کے ساتھ گزرے وقت کی یادیں پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ صحت بھی ساتھ نہیں دے رہی۔
وہ باتیں کیے جا رہے تھے کہ ان کی آنکھوں سے آنسوؤں ایک لامتناہی سلسلہ کا جاری ہو گیا۔ میں بڑے انہماک سے ان کی باتیں سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ کیسا رشتہ ہے؟ میں ان دونوں اور معاشرے کا موازنہ کر رہا تھا کہ اس دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی شریک حیات کو صرف کام والی سمجھتے ہیں۔ جو لوگ اس رشتے کو پہچان جاتے ہیں ان کے لیے یہ دنیا ہی جنت بن جاتی ہے۔ دوستان محترم ایک مثال اپ کے سامنے رکھتا ہوں اگر ہم میں سے کسی کو بھی یہ کہا جائے کے اپ کی شادی فلاں گھر میں ہونی ہے آپکو اپنے گھر سے رخصت ہو کر فلاں گھرجانا ہو گا تو سوچیں ہم پر کیا بیتے گی۔ ہزاروں سوالات آئیں گے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔ جب دوستوں رشتہ داروں ماں باپ بہن بھائی سب کو چھوڑنا پڑے تو کیا حالت ہو گی آپ کی؟
لیکن قدرت کا قانون ہے کہ یہ مشکل کام بھی صنفِ نازک کے حصہ میں آیا اور اس نے بخوبی نبھایا ہمیں تو سوچ کر ہی خوف اتا ہے۔ کبھی سوچا ہے ہم نے کہ جس کو ہم بیاہ کر ہم لا رہے ہیں وہ بھی کسی کی بیٹی ہے وہ بھی اس معاشرے کا حصہ ہے اس کی بھی سہیلیاں ہوں گی ماں باپ ہیں۔ بہن بھائی ہیں۔ لیکن وہ یہ سب رشتے صرف آپ پر قربان کر جاتی ہے اپنا تن من اپنے رشتے اس کے بدلے میں آپ سے کیا مانگتی ہے صرف پیار کے دو بول جو کہ ہم نہیں دے سکتے۔ اپ کے سامنے ایک خاکہ کھینچتا ہوں ذرا غور کریں۔ جو شادی شدہ ہیں ان کے لیے یہ خاکہ بنا رہا ہوں اور ان کو ایسی باتوں کا ادرک بھی ہے۔
آپ صبح سویرے آرام کی نیند سو رہے ہوتے ہیں اور آپکی شریک حیات اٹھ جاتی ہے۔ کیا پتا وہ رات بھر نہ سوئی ہو لیکن اپنے مقررہ وقت پر جاگ جاتی ہے پہلے نماز پڑھے گی اپ کے والدین کو چائے دے گی کیوں کہ یہ ہمارے ماشرے کا حصہ ہے کہ ہمارے بزرگ فجر کی نماز کے بعد چائے پیتے ہیں۔ اس کے بعد بیل کی طرح کام میں جت جائے گی بچوں کے لیے ناشتہ تیار کرے گی ان کو سکول کے لیے تیار کرے گی ناشتہ کروائے گی ایسے بھاگ رہی ہو گی جیسے جنگ میں سپاہی بھاگتا ہے، بچوں کو ناشتہ کروا کر سکول بھیجے گی بیچ میں آپکو بھی جگاتی رہے گی آپ نے تو اٹھنا ہی نہیں کیوں کہ آپ تو بادشاہ ہیں۔
آخر کار آپ نخرے دکھاتے اٹھیں گے اور واش روم تیار ہونے کے لیے چلے جائیں گے۔ نہا دھو کر نکلیں گے آپ کے لیے ناشتہ آپکی میز پر رکھا ہو گا اور آپ ناشتہ کر کے بڑے نازوں سے دفتر کے لیے نکلیں گے آپ کبھی اپنی بیوی کو یہ نہیں کہیں گے کہ اپنا خیال رکھنا یہ ناشتہ کر لینا۔ ایسا بولتے ہوئے آپکی توہین ہو جائے گی کیوں کہ وہ آپکی کام والی جو ہے۔ وہ بیچاری بے شرم بن کر آپکو اللہ حافظ کہنے دروازے تک آئے گی۔
آپ تو دفتر پہنچ جائیں گے اپنی دنیا میں گم ہو جائیں گے اور وہ اللہ کی بندی گھر میں صفائیاں کر رہی ہو گی اللہ جانے اس نے ناشتہ بھی کیا ہے یا نہیں۔ لیکن وہ آپکی خیریت پوچھنے کے لیے دو تین بار آپکو فون بھی کرے گی۔ لیکن آپ نے تو اس سے کچھ نہیں پوچھنا کہ ناشتہ کیا کیسی ہو۔ کیوں کہ وہ آپ کی کام والی جو ہے۔ جب وہ آپکو کال کر رہی ہو گی توآپ اس کو ڈانٹ دیں گے کہ پتا نہیں کہ دفتر میں مصروف ہوں۔ لیکن وہ برا نہیں مانے گی بس اتنا کہہ کر فون بند کر دے گی کہ اپنا خیال رکھنا۔
آپ دفتر سے گھر جانے کے بجائے اپنے دوستوں کے ساتھ سیر سپاٹے کر رہے ہوں گے گھر میں وہ بیچاری پریشان ہو رہی ہو گی کہ اللہ جانے لیٹ کیوں ہو گے لیکن آپکو احساس نہیں ہو گا۔ آپ کو بار بار پوچھے گی خیریت تو ہے نا گھر آنے میں دیر کیوں ہو گئی۔ آپ غصہ کر کے فون بند کر دیں گے کہ مصروف ہوں وہ یقین کر لے گی اور اتنا ہی بولے گی اپنا خیال رکھنا۔ آپ رات گئے مٹر گشت کر کے گھر پہنچیں گے تو گھر میں داخل ہوتے ہی آپ کے سامنے تولیہ صابن جوتے سب حاضر کر دے گی۔
آپ کی خیریت پوچھے گی لیکن آپ اس کے سامنے تھکاوٹ کا ڈھونگ رچا رہے ہوں گے۔ وہ پھر بھی یقین کر لے گی آپ کے لیے کھانا لگائے گی۔ آپ اس سے کچھ نہیں پوچھیں گے کیوں کہ وہ آپکی کام والی جو ہے، یہ سب روٹین تو شہروں کی ہے گاؤں میں کام والی کا کام دوگنا ہو جاتا ہے۔ کبھی آپکو خوف خدا آ ہی جائے تو سوچ لینا کے وہ بھی کسی کی بیٹی ہے جس کو والدین نے بڑے نازوں سے پالا ہے۔ وہ اپنے بھائیوں کی شہزادی ہے۔ وہ کام والی آپ سی کچھ نہیں مانگتی وہ آپ سے دولت شہرت پیسا کچھ نہیں مانگتی بس اگر مانگتی ہے تو صرف پیار کے دو بول جو کے ہم دے نہیں سکتے۔
کبھی دو لفظ پیار کے بول کے تو دیکھیں اپنی جان نچھاور کر دے گی ان دو لفظوں کے بدلے۔ بیوی کا رشتہ ایسا ہے کہ اس رشتہ میں کوئی بھی بات کوئی بھی راز پوشیدہ نہیں ہوتا۔ بیوی ہی آپ کی ہر بات کا پردہ رکھتی ہے بیوی آپکو بادشاہ بھی بناتی ہے اور معاشرے میں عزت کرواتی ہے۔ ذرا سوچیں کہ آپ بیوی کو کتنی اہمیت کتنا پیار کتنی عزت دیتے ہیں؟
آپ کی کام والی آپ کی سب سے اچھی دوست ہے اس کا خیال رکھیں بیوی کو بیوی سمجھیں نہ کہ کام والی پھر دیکھیں زندگی کتنی حسین ہو جائے گی۔ بیوی کو احترام دینا پیار دینا زن مریدی کے زمرے میں نہیں آتا۔ آئیں یہ بات غلط ثابت کریں۔