ڈاکٹر طاہرہ کاظمی
فاطمہ سہیل کے نیل نیل چہرے کی تصاویر سوشل میڈیا پر ہر طرف رقصاں ہیں۔ الزامات کی بوچھاڑ ہے، قران اٹھا کے بیان دیے جا رہے ہیں۔ یہ سب شور و غوغا اپنی جگہ، کون صحیح کون غلط کی بحث بھی جاری ہے مگر ایک بات طے ہے کہ فاطمہ کا مضروب چہرہ دل کو دکھی کرتا ہے !
مرزا صاحباں کی رومانوی داستاں میں صاحباں کی زبانی فلسفہ عشق کا وہ رزمیہ ہم سب نے سن رکھا ہے
میں نیل کرائیاں نیلکاں، مرا تن من نیلو نیل
میں سودے کیتے دلاں دے، وچ دھر لئے نین وکیل
صاحباں نے عشق کے مجازی زخموں کا دکھ بیان کیا تھا۔ محبت کرنے والی عورت نے یہ تو نہیں سوچا تھا کہ اکیسویں صدی میں بھی محبت اسے ایسے نشان دے گی جنہیں وہ زمانے کے سامنے رکھے تو رسوا ہو اور اپنے اندر چھپا لے تو مر جائے۔ یہ کیسی محبت ہے کہ نہ نین وکیل بنتے ہیں اور نہ دل سے اپیل کی جا سکتی ہے۔
فاطمہ سہیل ہی نہیں ہر وہ عورت جو جسمانی، مالی اور ذہنی تشدد کا شکار ہوتی ہے، حساس لوگوں کی اذیت کا باعث بنتی ہے۔ عورت پہ ڈھایا جانے والا تشدد بہت سے سوال بھی اُٹھاتا ہے؟
کیا کوئی اخلاقی اصول اور معاشرتی قاعدہ عورت کو پیٹنے کی اجازت دیتا ہے؟
کیا کوئی قانون عورت کو گالیاں بکنے کا جواز دیتا ہے؟
کیا عورت کو ذہنی طور پہ ہراساں کرنا جائز ہے؟
کیا عورت کی زندگی کا ماحصل یہی ہے کہ اپنا حق مانگنے اور زبان کھولنے کی پاداش میں مضروب ٹھہرے !
عورت یا مرد بن کے اس دنیا میں وارد ہونا کسی کے اختیار سے بالاتر ہے۔ یہ جبر وقدر کا وہ مسئلہ ہے جہاں سب کے پر جلتے ہیں۔ ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والے کی الفت پہ ہم یہ شک کر نہیں سکتے کہ اس نے ایک مخلوق کو دوسری کا پنچنگ بیگ بنایا ہو !
عورت اور مرد، گاڑی کے دو پہیے!
گو پرانی مثال ہے لیکن اب بھی دل کو لگتی ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہوتا ہے کہ عورت مرد کے ساتھ زندگی کے سفر میں دوڑتے دوڑتے اس کا کچرا دان بن جاتی ہے !
حضور کا دفتر میں دن اچھا نہیں گزرا، افسر اعلیٰ نے آج طبعیت کچھ زیادہ صاف کر دی سو ایک غبار ہے جو مزاج کو برہم کئے ہوئے ہے۔
بزنس کلائنٹس کے ساتھ میٹنگ اچھی نہیں گئی۔ کنٹریکٹ نہ ملنے کی صورت میں دفتر میں سبکی کا ڈر ہے، موڈ چڑچڑا ہو رہا ہے۔
محکمے میں ساتھی کی ترقی ہوئی، دفتر میں سب اس پر رشک کر رہے ہیں، سو اب جھنجھلاہٹ کا دورہ ہے۔
ٹریفک کانسٹبل سے چالان ہونے پہ منہ ماری ہوئی، غصہ ہے جو ابل رہا ہے کسی پر نکالنا تو ہے۔
اور اس غصے اور آگ کا شکار بننے والی ہے ایک ہستی، جو کہنے کو مرد کی زندگی کی ہم سفر ہے لیکن اصل میں مرد کی تمام فرسٹریشنز، ہر طرح کی کمی و کجی کو سہنے والی قوت گویائی سے محروم ایک گوشت پوست کا مجسمہ ہے۔
عورت کو پیٹ کے، گالیاں بک کے یا چیخ چلا کے اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے والے کے پاس اپنے اس عمل کی بے شمار توجیہات ہوتی ہیں اور ہر توجیہ کو جائز قرار دینے کے لیے بے شمار دلائل۔ یہ دلائل دیتے وقت بھی اس کے ذہن میں ملکیت کا تصور ہوتا ہے، ویسی ہی ملکیت جیسے صحن میں چارہ کھاتی بکری،
یا باہر باڑے پہ بندھی گائے !
(میری گاۓ، میری بکری، میری بیوی! میری، میری، میری ۔۔۔۔)
بنیادی تصور ایک ہی ہے یہ سب مرد کی املاک ہیں۔ ان سے کام لو، فائدہ اٹھاؤ، نفر میں اضافہ کرواؤ، ضرورت پڑے تو اپنی طاقت کا مظاہرہ چھمک لگا کے کرو، لیکن گردن اور آنکھیں جھکی رہنی چاہیں آخر مالک سے کون سوال وجواب کیا کرتا ہے؟
پاکستان میں کلینک کرتے ہوئے ہزاروں خواتین سے پالا پڑا جو اپنے زخم چھپاتے ہوئے ان پہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتیں ۔
یہ منہ پہ نیل کیوں ہے؟ کیڑے نے کاٹ لیا تھا۔
کان کا پردہ کیوں پھٹ گیا؟ الماری کی صفائی کرتے ہوئے اونچائی سے گر پڑی تھی۔
سامنے کا دانت کیوں ٹوٹا؟ کار تیز رفتاری سے جا رہی تھی اچانک بریک لگی تو منہ ڈیش بورڈ سے جا ٹکرایا۔
ماتھے پہ گومڑ کیوں ہے؟ دروازے سے ٹکر ہوگئی۔
ہم بھاری دل اور نم آنکھوں سے یہ سب توجہیات سنتے اور کبھی بھرم توڑنے کی جرات نہ کر سکے۔
ہمارا پتی ورتا کا عادی پدرسری معاشرہ عورت کو کسی بھی ایسی صورت حال میں ہمدردی دینے کی بجاۓ شرم دلانے کی روایت کا عادی ہے۔ معاشرہ عورت کے ساتھ کھڑے ہو کے اس ظلم میں آواز بلند کرنے کی بجائے وہ اسباب ڈھونڈتا ہے جس سے مرد نے مشتعل ہو کے عورت کو مضروب کیا۔ اس سب کا مقصد مرد کو اخلاقی طور پہ بری الذمہ کرنا ہوتا ہے۔
” ضرور تم نے زبان چلائی ہو گی”
” تم نے شوہر کی مرضی کا کھانا نہیں بنایا ہو گا “
” تم نے اس کے ماں باپ کا خیال نہیں کیا ہو گا “
“تم اسے غصہ کیوں دلاتی ہو آخر”
دیکھا آپ نے، عورت کو پیٹنے کی وجوہات کو جائز قرار دینے کی کوشش اور پھر شرم دلاتے ہوئے چپ رہنے کی تلقین !
” اب چھوڑو، گھر کی بات باہر مت نکالو”
“لوگ تم پہ ہی ہنسیں گے”
” تمہارا یقین کون کرے گا”
“صبر کر لو، آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا”
“ عورت ہی مصالحت کرتی ہے گھر قائم رکھنے کو”
ہم نے معاشرے کے اس جبر میں پستی عام گھریلو عورت سے لے کر اعلی تعلیم یافتہ عورتیں دیکھیں۔ شادی کو کامیاب کرنے کا بھاری پتھر معاشرے نے انہی کے نازک شانوں پہ رکھ چھوڑا تھا۔
” اب اتنی ذہین عورت ہو اور اپنا گھر نہ سنبھال سکے”
” دیکھو، پڑھی لکھی عورت کے معاملے میں لوگ ویسے ہی کنفیوز رہتے ہیں، تم ہی سمجھوتہ کر لو”
” اگر طلاق لے لو گی تو لوگ کیا حشر کریں گے”
” اور اگر اگلا شوہر بھی ایسا ہی ہوا تو؟ بہتر ہے اس کے ساتھ گزارا کر لو”
“بچوں کا کیا ہو گا”
یہ ہیں سوشل کرنسی کے تیر جو کھا کے عورت زہر کا پیالہ بھی پی لیتی ہے اور سولی بھی چڑھ جاتی ہے۔ یوں کہیے کہ اپنا گلا خود گھونٹ دیتی ہے۔ پدرسری معاشرے میں جہاں عورت کا موقف سننے کا چلن ہی نہیں اور سچی ہونے کی صورت میں بھی وہ شک زدہ نظروں سے دیکھی جاتی ہے، وہاں اپنے زخم عیاں کرنا آسان نہیں۔
فاطمہ سہیل نے بھی تو یہی کیا۔ پہلی دفعہ مضروب ہونے کے بعد ان زخموں کو عیاں کرنے کی بجائے صبر کا گھونٹ پی لیا کہ گرہستی بچانے کا بوجھ اسی کی ذمہ داری بنا دیا گیا تھا۔
فاطمہ، تم نے بہت غلط کیا!
شادی شدہ زندگی اور گھر کو قائم رکھنا صرف عورت کا کام نہیں۔ یہ ایک معاہدہ ہے جو دو لوگوں کی ذمہ داری ٹھہرتا ہے اور مکان کو گھر میں بدلنے کے لئے بھی دونوں فریق برابر کے شریک ہیں۔ طوفانوں کے گرداب اور بارشوں میں ٹپکنے والی چھت کو ایک نہیں دونوں ساتھیوں کے سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔
فاطمہ اور سب تشدد کا شکار ہونے والی عورتوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جو ہاتھ ایک دفعہ ظلم کے لئے اٹھ گیا وہ پھر کبھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ جو زبان ایک دفعہ کھل گئی، وہ اب کبھی نہیں رکے گی۔ جنہیں زدوکوب کرنے کی عادت پڑ گئی وہ اب چھٹے گی نہیں۔
ضرب لگانے والے کا ہاتھ اور زبان پہلی دفعہ میں روکنا ہوتا ہے۔ پہلی دفعہ میں ہی چیخ چیخ کے معاشرے کو اور مرد کو بتا دینا ہوتا ہے کہ اس رشتے میں یہ سب نہیں ہو گا۔ مرد کی جذباتی اور انسانیت سے گری ہوئی حرکات کو عورت اپنے دامن میں نہیں چھپائے گی۔
وہ سب جی دار جو عورت کی لغزشوں (مرد کی نظر میں) کی داستانیں بیان کر کے اپنے ہتھ چھٹ ہونے کو جائز قرار دیتے ہیں، انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ عورت اگر ہزار غلطیاں کرنے کی قصوروار بھی ہو، مرد کی پسندیدگی کی سند سے محروم بھی ہو تب بھی اسے مرد کے وحشیانہ پن کا شکار نہیں ہونا، عورت کے نازک جسم پر مرد کی مردانگی کی مہر نہیں لگوانی۔
معاشرے کے ناخداؤں کو جان لینا چاہئے کہ شرم اور جھوٹی عزت کی پروا صرف عورت کا نصیب نہیں۔ عورت کو اپنے دل پہ گرنے والے آنسوؤں کو سمندر نہیں بنانا۔ کائنات کے رنگوں پہ اس کا بھی مرد جتنا ہی حق ہے اور وہ عورت بہادری کا تمغہ سجانے کی حقدار ہے جو معاشرے کے بد نما داغوں کا پردہ چاک کرتی ہے اور سنگ باری کا نشانہ بنتی ہے۔