ڈاکٹر خالد سہیل
آج 9 جولائی 2019 ہے۔ یہ میری 67 ویں سالگرہ ہے اور میں اپنی زندگی کی شام میں داخل ہو رہا ہوں۔
میں جب اپنی ماضی کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ آج سے نصف صدی پیشتر جب میں 17 برس کا تھا تو میں نے یہ جانا تھا کہ زندگی فطرت کا ایک نادر تحفہ ہے اور مجھے یہ اختیار ہے کہ میں اس قیمیتی تحفے کو بہت سے اور لوگوں کی طرح ضائع کر دوں یا اپنی زندگی کو بامقصد ’بامعنی اور کامیاب بناؤں۔
میری زندگی کیسے بامعنی ’بامقصد اور کامیاب بن سکتی ہے؟ میں اس سوال پر کافی صبحیں اور شامیں‘ دن اور رات سنجیدگی سے غور و خوض کرتا رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے کھلی آنکھوں سے چند خواب دیکھنے چائییں اور پھر ان خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ چنانچہ میں نے جاگتی آنکھوں سے چند خواب دیکھے۔
میرا پہلا خواب یہ تھا کہ میں ایک ڈاکٹر بنوں اور نفسیات میں تخصص حاصل کر کے مسیحائی کے راز جانوں تا کہ لوگوں کے دکھوں کو سکھوں میں بدلنے میں مدد کر سکوں۔ میں اپنی تیسویں سالگرہ تک ماہرِ نفسیات بننا چاہتا تھا اور پھر ریٹائر ہونے سے پہلے تیس برس اپنے کلینک میں نفسیاتی مریضوں اور ان کے خاندانوں کا علاج کرکے خدمتِ خلق کرنا چاہتا تھا۔
میرا دوسرا خواب ایک لکھاری بننے کا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ میں ایک نہیں بہت سی اصناف میں بہت سی کتابیں لکھوں اور اپنے تجربات خیالات اور نظریات کو قلم بند کروں تا کہ لوگ میرے فلسفہِ حیات کو پڑھ سکیں اور اپنی زندگی کو بامعنی اور کامیاب بنا سکیں۔ میں جان گیا تھا کہ کامیاب ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کی نفسیات marathon runners کی نفسیات کی طرح ہوتی ہے۔ وہ عمر بھر انتھک محنت کرتے رہتے ہیں۔
میرا تیسرا خواب یہ تھا کہ میں دنیا بھر کی سیر کروں ’مختلف قوموں کے لوگوں سے ملوں اور ان کے طرزِ زندگی سے کچھ سیکھوں۔
میرا چوتھا خواب یہ تھا کہ میں دوستوں کا وسیع حلقہ بناؤں جس میں مختلف خیالات ’روایات اور نظریات کے مرد اور عورتیں شامل ہوں۔
آج جب میں پچاس سال کے بعد اپنے خوابوں کے بارے میں سوچتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ میں ان معدودے خوش قسمت انسانوں میں سے ایک ہوں جن کے زندگی کے تمام خواب شرمندہِ تعبیر ہوتے ہیں۔
میں نے جون 1982 میں کینیڈا سے نفسیات میں FRCP کی ڈگری حاصل کی جو میری تیسویں سالگرہ سے تین ہفتے پہلے تھی۔ اب میں اپنے نفسیاتی کلینک میں تیس برسوں سے اپنے مریضوں کا علاج کر کے خدمتِ خلق کررہا ہوں۔ چونکہ میں آج بھی جوان محسوس کرتا ہوں اس لیے ریٹائرمنٹ کے بارے میں کم سوچتا ہوں۔
میں نے پچھلے تیس برسوں میں اردو اور انگریزی کی تین درجن سے زیادہ کتابیں لکھیں اور چھپوائیں۔ میری بہت سی اردو کی کتابیں میری ویب سائٹ www۔ drsohail۔ org پر مفت دستیاب ہیں۔ یو ٹیوب پر بھی میرے اور ڈاکٹر بلند اقبال کے۔ IN SEARCH OF WISDOM۔ کے پینتیس پروگرام موجود ہیں۔
1982 میں جب مجھے کینیڈا کا پاسپورٹ ملا تو سب سے پہلے میں نے جنوبی افریقہ اور اسرائیل کا سفر کیا جہاں میں ان دنوں پاکستانی پاسپورٹ پر نہین جا سکتا تھا۔ اس کے بعد میں نے شمالی امریکہ۔ جنوبی امریکہ۔ جنوبی افریقہ۔ یورپ۔ سکنڈینیوین ممالک۔ روس اور مشرقِ وسطیٰ کے کئی شہروں میں سفر بھی کیا اور بہت کچھ سیکھا بھی۔
پچھلی چار دہائیوں میں میں نے مختلف ملکوں ’قوموں اور مذاہب کے بہت سے دوست بنائے۔ ایک پاکستانی مرد ہونے کے باوجود میں نے عورتوں سے دوستی کا راز سیکھا اور جانا کہ جب مشرقی اور مغربی عورتیں جان لیں کہ کوئی مرد ان کی دل کی گہرائی سے عزت کرتا ہے اور ان کی رائے کا احترام کرتا ہے تو وہ خود ہی دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہیں۔
اب ہم نے مل کر کینیڈا میں اپنے دوستوں کا حلقہ بنایا ہے جس کا نام FAMILY OF THE HEART ہے۔ ہم ہر ایک یا دو ماہ بعد ایک ادبی پروگرام کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ہم مقامی اور بین الاقوامی ادیبوں شاعروں اور دانشوروں کو بلاتے ہیں اور ان کی کتابوں کے بارے میں تبادلہِ خیال کرتے ہیں اور نئے لکھنے والوں کو بزرگ لکھنے والوں سے ملواتے ہیں تا کہ وہ سب مکالمے میں شریک ہوں اور ایک دوسرے سے کچھ سیکھ سکیں۔ اگلے ہفتے چودہ جولائی کو ہم اسلام آباد سے آئے ادیب نعیم اشرف کے ساتھ ایک شام منا رہے ہیں۔ انہوں نے میرے اور رابعہ الربا کے خطوط۔ دروشیوں کے ڈیرے۔ کا ’جو سب سے پہلے‘ ہم سب ’پر چھپے تھے‘ انگریزی میں ترجمہ کیا ہے جو اب ایمیزون پر دستیاب ہے۔ نعیم اشرف نے کتاب کا نام DERVISHES ”INN رکھا ہے۔
میں نے اپنی زندگی کی پچھلی نصف صدی کے تجربے ’مشاہدے‘ مطالعے اور تجزیے سے یہ سیکھا ہے کہ ہر دور اور قوم میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ پہلا گروہ روایتی اکثریت کا ہوتا ہے جو روایت کی شاہراہ پر چلتا ہے۔ دوسرا گروہ تخلیقی اقلیت کا ہوتا ہے جو اپنے من کی پگڈنڈی پر چلتا ہے اور ایک انصاف اور امن پسند معاشرہ قائم کرنے کے لیے ہر جابرانہ اور غیر منصفانہ روایت کو چیلنج کرتا ہے۔ اس گروہ میں ہر عہد کے سائنسدان اور سکالر۔ شاعر اور دانشور۔ صوفی اور فنکار۔ جرنلسٹ اور ریفارمر شامل ہوتے ہیں۔ چونکہ وہ روایت کو چیلنج کرتے ہیں اس لیے انہیں اپنے سچ کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ ہمارے عہد میں سعادت حسن منٹو جیسے افسانہ نگار اور حبیب جالب جیسے شاعر اس کی عمدہ مثالیں ہیں جنہوں نے اپنے سچ کے لیے بہت سی قربانیاں دیں۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ ایک نسل کے باغی اگلی نسل کے ہیرو بن جاتے ہیں اور ایک نسل کی پگڈنڈیاں اگلی نسل کی شاہراہیں بن جاتی ہیں۔
میری نگاہ میں کسی بھی جینون شاعر کو کامیابی کو گلے لگانے اور اپنے خوابوں کو شرمندہِ تعبیر کرنے کے لیے چار آزمائشوں کا سانا کرنا پڑسکتا ہے۔
پہلی آزمائش دولت ہے۔
دوسری آزمائش شہرت ہے۔
مردوں کے لیے تیسری آزمائش عورت ہے اور
چوتھی آزمائش ہجرت ہے۔
وہ ادیب شاعر اور دانشور جو ان آزمائشوں میں کامیاب نہیں ہوتے راستے میں کہیں رک جاتے ہیں یا کھو جاتے ہیں اور جو ادیب شاعر اور دانشور ان آزمائشوں میں کامیاب ہوتے ہیں ’اپنے فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دیتے ہیں‘ انہیں ان کی کامیابی آگے بڑھ کر گلے لگاتی ہے اور ان کے خواب شرمندہِ تعبیر ہوتے ہیں۔
میں خوش قسمت ہوں کہ میرے سب خواب شرمندہِ تعبیر ہوئے۔ اگر میں آج کی رات اس دنیا سے چلا جاؤں تو میرے دل کو سکون ہوگا کہ میں اپنی انسان دوستی کا سچ تلاش کرنے میں کامایب ہوا۔ میں نے خدمتِ خلق کی اور اپنی تخلیقات سے انسانی شعور کو بلند کرنے کی کوشش کی۔ اسی لیے میں کہتا ہوں کہ میری تخلیقات دکھی انسانیت کے نام میرے محبت نامے ہیں۔
میں آج کے دن ’ہم سب‘ کے مدیران وجاہت مسعود اور عدنان کاکڑ کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنی محبت کی بارش سے مجھے اندر تک بھگو دیا اور میرے دو سو سے زیادہ کالم چھاپے۔ میں آپ سب قارئین کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے اپنی آرا سے مجھے ایک بہتر ادیب اور ہمدرد انسان بننے کی تحریک دی۔ میں آپ سب کا بہت مشکور ہوں۔
آج میں اپنی زندگی کے بارے میں کہہ سکتا ہوں کہ
؎ یہ نصف صدی کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں
آج مجھے فیض احمد فیض کا یہ شعر یاد آ رہا ہے
؎ فیضؔ تھی راہ سر بسر منزل
ہم جہاں پہنچے کامیاب آئے