تھوڑی جلدی ہے

زیباشہزاد
Q

یوں تو جلدی ہم سب ہی کو ہوتی ہے۔ اور تھوڑی نہیں بہت زیادہ جلدی ہوتی ہے شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہم لوگ بہت زیادہ جلدی میں دنیا میں آگئے ہوں۔ جیسا کہ ابھی پہلے بیٹے کی رسم عقیقہ ادا کی جانی ہو تو ماں باپ نے سوچا کیوں نہ ایک ہی بار سب بچوں کے عقیقہ اکٹھے کر دیے جائیں۔ عقیقہ سنت ہے جسے جلد ادا کرنے کا حکم ہے۔ بس پھر اسی سنت کی جلد ادائیگی کے لئے بچوں کی آمد کا سلسلہ جلدی جلدی شروع ہوجاتا ہے۔ وہ الگ کہ پھر بچوں کے فرض ادا کرنے کے چکر میں سنت موقوف کردی جاتی ہے۔

جہاں دو جی کمرے میں اکٹھے ہوئے، گھر کی فضا میں دھواں اٹھنے لگتا ہے۔ اماں جی فکر مندی سے بار بار بن بیاہی بیٹی کو بھیجتی ہیں۔ جا ذرا پتہ تو کر اندر ہو کیا رہا ہے۔ حالانکہ اندر کچھ نہیں ہورہا ہوتا۔ زیادہ سے زیادہ منے کی اماں کی منے کے ابا سے لڑائی ہورہی ہوتی ہے۔ کہ تم میری نہیں سنتے، ساری کمائی ماں بہن کو دے دینا بس۔ اور منے کا ابا بھی ہلاکو خان بنا بیٹھا ہوتا ہے کہ ہاں دوں گا تیری کمائی ہے۔ ؟ یہ کہا اور دو تھپڑ بھی جڑ دیے ساتھ ہی۔ باہر خوشی اور اندر سسکیوں کا ماحول بن جاتا ہے اور بس اسی تو تکار میں روٹھنے مناتے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اسی دوران پیار کے دو بول بولنے کا لمحہ آجائے تو باہر والوں کے دھڑکے میں جلدی مچ جاتی ہے۔ سو محبت کے لمحات کو محدود کر کے وسیع پیمانے پر خانگی جنگ دوبارہ چھیڑ دی جاتی ہے۔

اور پوری توجہ، انہماک، آرام و سکون کے ساتھ لڑائی کی طرف دھیان کر لیا جاتا ہے۔ اور اس کے لئے پنجابی کا مشہور زمانہ محاورہ ”لڑائی تے لسی جنی مرضی ودھا لو“ بھی بیچ میں کود پڑتا ہے۔ اور بس پھر محبت کی نشست محدود کر کے لڑائی ”ودھالی“ جاتی ہے۔ کسی کم بخت نے آج تک اس محاورے کو تبدیل کرنے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ یہ بھی تو کہا جاسکتا ہے کہ ”پیار تے“ مشروب ”جنا مرضی ودھالو“ لیکن نہ جی۔ اور بس پھر بنا جلدی کے پورے آرام کے ساتھ لڑائی کو بڑھایا جاتا ہے۔

جانے کیوں ہم تو تکار کو ختم کرنے میں جلدی نہیں کرتے جتنی جلدی پیار کے دو بولوں کو ختم کرنے میں کرتے ہیں۔ اس لحاظ سے بدیسی لوگ اچھے ہیں۔ انھیں جلدی دکھانے کاسلیقہ تو ہے۔ وہ ادھر ہی جلدی دکھاتے ہیں جہاں جلدی دکھانی چاہیے۔ جیسا کہ کام کے اوقات میں، یا دفتری امور کے معاملات میں انتہائی جلد باز ہیں۔ ۔ اور اگر انھیں گرل فرینڈ سے ملنے جانا ہو تو قطعاً جلد بازی سے کام نہیں لیتے۔ بلکہ اس کے لئے ویکنڈ کا انتظار کرتے ہیں۔

اور آرام سے اس کو سیلیبریٹ کرتے ہیں کہ جلدی جلدی میں کچھ غلط نہ ہوجائے۔ ہم جلد باز لوگ تو عشق بھی سکون سے نہیں کرتے۔ اس کے لئے بھی جلدی مچا دیتے ہیں۔ کہ اگر لڑکی مان گئی تو ٹھیک ورنہ دوسری تو ہاتھ سے نہ جائے۔ اور اسی جلدی کے چکر میں دونوں کو کھو دیتے ہیں۔ اگر کسی عاشق نے محبوبہ سے ملنے تین بجے جانا ہے تو ایک بجے ہی اس کے گھر کے گرد منڈلانا شروع کر دے گا۔ اور اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہر عاشق کے نصیب میں ازل سے لکھا جا چکا ہے۔

یعنی محبوبہ کے بھائیوں سے پٹائی۔ اگر لڑکی اپنے محبوب سے فون پر محو گفتگو ہے تو ایک دم سے اس کو جلدی پڑ جائے گی۔ جانو جلدی بات ختم کرو کوئی آجائے گا۔ حالانکہ آنا کسی نے بھی نہیں ہوتا۔ وہ فون پر بات ہی تب کرتی ہے جب سب گھر والے دور کسی شہر گئے ہوں۔ ویسے تو ہم جلد باز لوگ ہیں۔ لیکن جانے ہماری تیز گام ٹرینیں انتہائی سست کیوں ہیں۔ ریلوے پھاٹک اگر بند ہو تو ٹرین سے زیادہ جلدی لوگوں کو ہوتی ہے۔ لوگوں کا بس نہیں چلتا کہ ریلوے پھاٹک کا دروازہ کھول دیں یاپھر اتارہی دیں۔

کہ پھاٹک بند ہونے پہ تاخیر ہوجاتی ہے۔ گاڑی جب آئے گی تو گزر بھی جائے گی اس کے لوگوں کا مجمع لگانے کی کیا ضرورت۔ ہمارے طالب علم بھی بہت جلد باز ہوتے ہیں۔ انھیں پیپر دینے کی اتنی جلدی ہوتی ہے کہ بیشتر طالب علم دوسرے طالب علموں سے پہلے پیپر دینا پسند کرتے ہیں۔ کچھ تو اتنے جلد باز ہوتے ہیں کہ وہ پیپر شیٹ پکڑتے ہی واپس کر کے امتحانی مرکز سے باہر آجاتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنی ساری زندگی جلدی میں گزاردیتے ہیں لیکن انھیں دنیا سے جانے کی ذرا جلدی نہیں ہوتی۔

بلکہ اگر کوئی من چلا چھیڑنے کی خاطر انھیں بس اتنا کہہ دے کہ کب جارہے ہیں آپ؟ تو وہ پرانے زمانے کی متروک شدہ گالیوں سے اتنا نوازتے ہیں۔ جتناشاہ جہان نے ملکہ ممتاز محل کو نوازا تھا۔ نئی نسل پرانے علم سے فیض حاصل کرتی ہے۔ ایسے لوگ اپنے کام میں کسی بھی قسم کی دیری برداشت نہیں کرتے اور اس حد تک جلد باز ہوتے ہیں کہ ابھی کوئی آس پڑوس میں بیمار ہو کہ بستر پہ پڑا نہیں اور یہ گھر والوں کو پرسہ دینے پہنچ جاتے ہیں۔

کہ حوصلہ رکھو سب نے ایک دن اپنی باری پہ جانا ہے۔ ہماری جلدبازی کی ایک قسم اس وقت دیکھنے میں آتی ہے جب کسی دوست کے توسط سے پتہ چلے کہ خاندان کے ایک بزرگ ہسپتال میں دیکھے گئے ہیں۔ بس جی نہ پوچھیے پھر پورے خاندان میں کیسی تھر تھلی مچتی ہے۔ پورا خاندان کلاتھ مارکیٹ سے ہوتا ہوا درزی کے پاس پہنچ جاتا ہے۔ بلکہ خواتین تو بابا جی کی متوقع فوتگی کے حوالے سے اتنی حساس ہوجاتی ہیں کہ ویکسنگ، تھریڈنگ اور فیشل کروانے بیوٹی پارلر جا پہنچتی ہیں۔

کہ آخر لوگ ہمارا چہرہ ہی تو دیکھتے ہیں۔ بزرگ کی عیادت کو جانا کسی کونصیب نہیں ہوتا۔ پورا خاندان ہینگر میں کپڑے لٹکا کر فون کی ہر بیل پرچوکنا ہوجاتا ہے۔ جس کابھید کافی دنوں بعد کھلتا ہے کہ بڑے میاں ہسپتال پڑوسن کی عیادت کو گئے تھے۔ جلد بازی کی ایک مثال مجھے بینک میں دیکھنے کو ملی۔ گذشتہ دنوں کسی کام سے بینک جانا ہوا تو ادھر لوگوں کا جم غفیر ہرگز نہیں تھا۔ اتنے ہی لوگ تھے جتنے اس چھوٹے سے ہال میں سما سکتے تھے ہر ایک کو جلدی تھی۔

میرے کام میں اوروں کی طرح تھوڑا وقت درکارتھا۔ لہذا میں پہلی لائن چھوڑ کر آخری لائن میں رکھے صوفے کی پہلی سیٹ پر بیٹھ گئی۔ صوفہ بھی میرے دل کی طرح خالی۔ تھا۔ کہ ہال جو بھرا تھا لوگوں سے۔ بیٹھنے کے لئے جگہ موجود ہونے کے باوجود لوگ کھڑے تھے۔ لوگوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ کام کرنے والے عملہ کو اٹھا کر اپنی اپنی فائل اٹھا کر خود ہی اپنا کام نپٹالیں۔ ایک صاحب پورا ایک گھنٹہ لوہے کی گرل سے منہ ٹکائے کھڑے رہے۔

وہ کبھی ایک کاؤنٹر سے جھانکتے تو کبھی دوسرے کاؤنٹر کی گرل سے منہ ٹکا لیتے۔ کچھ فیشن ایبل خواتین کام کرنے والے مردوں کا اپنی دلکش اداؤں سے امتحان لینے پر تلی تھیں۔ اور وہ بیچارے عالم ضبط میں اپنی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے۔ کچھ گھریلو ٹائپ خواتین کاؤنٹر پر جاجا کر بتارہی تھیں کہ وہ بہت ضروری کام چھوڑ کر آئی ہیں۔ لہذا ان کا کام پہلے کردیا جائے۔ حالانکہ جو ضروری کام وہ چھوڑ کر آئیں تھیں۔ وہ وہی کام تھا جس کو لگ بھگ تمام خواتین صبح صبح سب سے پہلے کرتی ہیں۔

یعنی ساس بہو کی لڑائی۔ صبح اٹھ کر دونوں کو اس بات کی جلدی ہوتی ہے کہ کہیں لڑنے میں دوسرا فریق پہل نہ کر لے۔ جانے کیوں ہم ہر اس کام میں جلدی مچاتے ہیں۔ جس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہوتی۔ جیسا کہ سڑک پار کرنے کی جلدی میں اکثر لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بھیٹتے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے جلد باز لوگوں پہ۔ اگر آپ کسی بھی کام کے لئے گھر سے نکل ہی پڑے ہیں۔ تو ذہن میں رکھیں کہ ہر کام وقت لیتا ہے کسی کے پاس بھی الٰہ دین کا چراغ نہیں کہ رگڑو اور کام ہو جائے۔ لیکن کیا کریں ہم میں سے ہر ایک کو جلدی ہوتی ہے۔