سعدیہ معظم
آنگن میں شام اترتے ہی ماں لالٹین کی بتیاں اوپر کر دیتی۔ ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی بڑھ رہی تھی۔ سردیاں دبے پاؤں آرہی تھیں۔ موسم کی تبدیلی گھر میں پہلے ہی پتا چل جاتا تھا ابا کی کھانسی جو شددت اختیار کرلیتی تھی۔ ابا جو عرف عام میں شیرو مشہور تھا اب ایک چارپائی پہ گٹھری کی طرح پڑا رہتا تھا۔
وہ کوئی جوان عورت نہیں تھی اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے کرتے اس کے بالوں میں بھی سفیدی آگئی تھی شادی جیسی مسرت اسے نصیب نہیں ہوئی تھی۔
میں اس کے پڑوس میں ہی رہتی تھی بچپن ساتھ کھیلتے گزرا بارش کا موسم ہم دونوں کوہی بہت پسند تھا آنگن میں پانی کھڑے ہونے کی دیر تھی کہ بھاگ کے اپنے بستے سے پرانی کاپیاں نکال لاتے اور پھر ہماری کاغذ کی کشتیاں ان پانیوں پہ تیرتی نظر آتی ہم بھی تخیل میں ان کشتیوں پہ سفر کرتے ناجانے کہاں کہاں کی سیر کر آتے۔
ہنستے کھیلتے وقت کب اتنا آگے نکل آیا کہ ہم اپنے گھروں میں محدود ہوگئے۔ میری تعلیم مکمل ہوئی۔ پھر ماں باپ نے شادی کا فرض بھی ادا کر دیا۔ میں اپنے پیا دیس سدھار گئی۔ شادی کے بعد اکثر ہی میکے آنا جانا رہتا۔ سہیلی سے بھی مل آتی۔ وقت گزرتا رہا اور میری گود میں دو بچے بھی کھیلنے لگے پھر شوہرکے ٹرانسفر کی وجہ سے شہر چھوڑنا پڑا۔ اب پانچ سال بعد واپسی ہوئی سب گھر والوں سے ملاقات سے سیر ہونے کے بعد اپنی سہیلی کی یاد ستائی تو اس کی خبر لینے دوڑی۔
گھر میں قدم رکھتے ہی ایک یاسیت سی محسوس ہوئی درودیوار پہ اداسی طاری ہوجیسے۔ دروازے کی آہٹ پہ ابا کھانسے جیسے آہٹ ہی کھانسنے کی وجہ ہو اماں سل پہ بٹہ رکھ کے میری جانب اٹھ کے بڑھی گلے مل کے دعائیں دی پھر باورچی خانہ کی جانب اشارہ کردیا۔ میں دبے قدموں دل میں گدگدی لئے اپنی سہیلی سے ملنے کی بے چینی لئے آگے بڑھی اور پیچھے سے اس کی کمر میں ہاتھ ڈال دیے۔ لمحے بھر کو وہ چونکی پھر گلے لگ گئی۔ مھے ایک بات پہ حیرت تھی وہ اب پہلے جیسے نہیں رہی تھی۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی۔ میں نے اماں سے کہا کہ یہ کیا حال کرلیا اس نے اپنا اماں بس اتنا ہی کہ سکی جو نصیب میں وہی حال ہے بیٹا!
وہ میرا ہاتھ دبا کے مجھے اپنے کمرے میں لے گئی اور رندھے ہوئے گلے سے بولی یہ جواماں کہتی ہیں نا کہ جو نصیب میں ہو وہی ہوتا ہے یہ غلط ہے، سراسر غلط۔
میں آج اپنی بے چارگی کی کہانی تمہیں سناتی ہوں۔ اللہ کسی کو بھی ایسا نصیب نہیں دیتا ہم اسے ایسا بنا دیتے ہیں۔ میرے ابا آج جو ادھ مری زندگی کھانس کھانس کے گزار رہے ہیں کبھی بڑے دبنگ انسان ہوتے تھے کسی کو گنتی میں نہیں لاتے تھے۔ میری اماں ایک حسین عورت تھی شاید یہی بات میرے ابا کو ہضم نہیں ہوئی تھی وہ اپنے سے برتر کسی کو بھی برداشت نہیں کرسکتے تھے کجا یہ کہ لوگ ان کا مقابلہ بیوی سے کرتے۔
اپنے آگے وہ اماں کی ایک نا چلنے دیتے بات بے بات ہاتھ اٹھاتے اولاد پیدا ہونے کے باوجود ان کا دل نرم نہیں ہوا۔ ظلم کی انتہا یہ تھی کہ بیماری آزاری میں ڈاکٹرکے پاس لے جانے کی بجائے کھانا وقت پہ نہ ملنے پہ ایک ہنگامہ پرپا کر دیتے۔ خاندان بھر کے کپڑے بن جاتے بس اماں کاجوڑا نہ آتا۔ اسکول سے گھر آتے تو کبھی اماں کی آنکھ سوجی ہوتی کبھی بازو پہ نیل۔ آج تک سمجھ نا آیا ابا کوکیا احساس کمتری تھا۔ اماں اللہ کا شکر ادا کرتی تھیں کہ اس نے بیٹا نہیں دیا ورنہ وہ بھی اپنے باپ پہ ہی جاتا۔ وقت آگے بڑھتا گیا میں شادی کی عمر کو آ پہنچی۔
دوسری طرف ابا ہر رشتہ ٹھکرا دیتے۔ ٹھکرانے کی وجہ شاید وہ رویہ بنتا تھا جو خود اماں کے ساتھ روا رکھا تھا۔ اب بات اپنی اولاد کی تھی تواندر ہی اندر خوف پیدا ہو گیا۔ جیسی زندگی گزار کر آئے تھے اس کا اپنی اولاد کے لئے تصور ہی محال تھا۔
اباکے شانے ڈھلک گئے تھے آواز میں لڑکھڑاہٹ آگئی تھی۔ اماں جن کا وجود اپنے قریب برداشت نہ ہوتاتھا اب اپنے سامنے سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔ میں جو اپنی خواہشوں کو حسرتوں می بدلتا دیکھ رہی تھی جانتی تھی یہ نصیب کا لکھا نہیں ہے یہ ہر اس عمل کا ردعمل ہے جو انسان زندگی میں کرتا ہے۔
اس کی تکلیف شاید میں سمجھ سکتی تھی کیونکہ موازنہ کرتی تو واقعی میرے ابا نے میری اماں کو شہزادی بنا کر رکھا تھا جس کا صلہ آج میں اپنے گھر میں ملکہ بن کر رہ رہی تھی۔
زندگی کے ہر موڑ پر کسی بھی بات کو نصیب کا لکھا سمجھنے سے پہلے پلٹ کر ضرور دیکھنا چاہیے۔ شاید کہ نصیب سدھارنے کا موقع مل ہی جائے۔