ایک دور وہ بھی تھا جب لڑکی اپنے باپ کی دہلیز پار کرتی تھی اور اس کے کان میں یہ سرگوشی کر دی جاتی تھی کہ خوشی میں سو دفعہ آنا لیکن کبھی اپنے شوہر سے جھگڑ کر مت آنا۔ لڑکی بھی یہ عہد باندھ کر اپنے باپ کی دہلیز پار کرتی تھی کہ کبھی اپنے ماں باپ کو شرمندہ نہیں ہونے دے گی۔ زچگی کی تکالیف ہوں یا سسرال کے خدمت سب برداشت کر لیتی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ بالکل ہی ان پڑھ یا جاہل ہو۔ دینی تعلیم اور تھوڑی بہت دنیاوی تعلیم تو دی ہی جاتی تھی۔ مجازی خدا تسلیم کرنے کے بعد سب رشتے سر آنکھوں پہ نبھائےجاتے تھے۔ بچوں کی پیدائش پہ چاچو کی خوشی دیدنی ہوتی…
سعدیہ معظم آنگن میں شام اترتے ہی ماں لالٹین کی بتیاں اوپر کر دیتی۔ ہوا میں ہلکی ہلکی خنکی بڑھ رہی تھی۔ سردیاں دبے پاؤں آرہی تھیں۔ موسم کی تبدیلی گھر میں پہلے ہی پتا چل جاتا تھا ابا کی کھانسی جو شددت اختیار کرلیتی تھی۔ ابا جو عرف عام میں شیرو مشہور تھا اب ایک چارپائی پہ گٹھری کی طرح پڑا رہتا تھا۔ وہ کوئی جوان عورت نہیں تھی اپنے ماں باپ کی خدمت کرتے کرتے اس کے بالوں میں بھی سفیدی آگئی تھی شادی جیسی مسرت اسے نصیب نہیں ہوئی تھی۔ میں اس کے پڑوس میں ہی رہتی تھی بچپن ساتھ کھیلتے گزرا بارش کا موسم ہم دونوں کوہی بہت پسند تھا آنگن میں پانی کھڑے ہونے کی…
سعدیہ معظم بات محبت سے بہت آگے کی تھی یہ وہ سمجھاہی نہیں۔ وہ سمجھ بھی نہیں سکتاتھا گاؤں کے ماحول میں بڑاہوا جہاں اس نے عورت زات کو صرف خاموشی سے محنت کرتے دیکھا کبھی مرد کے آگے کوئی فرمائش تودور کی بات اونچی آواز میں بولتے نہیں دیکھاتھا۔ آنگن میں بچیاں کھیلتی ہوں یاگھراور کھیتوں میں کام کرتی عورتیں سب اپنے اپنے دائرے میں بندھی خاموشی سے جتی صرف مرد کی حکمرانی چلتی تھی۔ پھروہ شہرآیا جہاں ہرطرف عورت کا الگ ہی روپ نظر آیا کوئی ساتھی کولیک تھی تو کوئی اس کے لئے خبر اتنے روپ دیکھ کر بھی وہ اپنی اسی سوچ کے ساتھ تھا لیکن شہر کی ہوائیں بہت الگ ہوتی …
Social Plugin