یہ شہر ہے یہاں بات محبت سے آگے کی ہے

سعدیہ معظم 

بات محبت سے بہت آگے کی تھی یہ وہ سمجھاہی نہیں۔ وہ سمجھ بھی نہیں سکتاتھا گاؤں کے ماحول میں بڑاہوا جہاں اس نے عورت زات کو صرف خاموشی سے محنت کرتے دیکھا کبھی مرد کے آگے کوئی فرمائش تودور کی بات اونچی آواز میں بولتے نہیں دیکھاتھا۔ آنگن میں بچیاں کھیلتی ہوں یاگھراور کھیتوں میں کام کرتی عورتیں سب اپنے اپنے دائرے میں بندھی خاموشی سے جتی صرف مرد کی حکمرانی چلتی تھی۔ پھروہ شہرآیا جہاں ہرطرف عورت کا الگ ہی روپ نظر آیا کوئی ساتھی کولیک تھی تو کوئی اس کے لئے خبر اتنے روپ دیکھ کر بھی وہ اپنی اسی سوچ کے ساتھ تھا

لیکن شہر کی ہوائیں بہت الگ ہوتی ہیں ان میں خالص مٹی کی خوشبو نہیں ہوتی اس میں تو رنگ برنگی مہنگی مہنگی پرفیوم بسی ہوتی ہے ایک روپ پہ کئی تہیں چڑھی ہوتی ہیں

مانا شہر کے کئی رنگ ہوتے ہیں کئی ضرورتیں ہوتی ہیں ماحول اور حالات کے اتارچڑھاؤ ہوتے ہیں لیکن وہ گاؤں کاسادہ سا انسان ہرعورت کودیکھ کربس یہی سوچتا تھا کہ جیسے گاؤں کی عورت اپنی زندگی کامحور مرد کوبنا کررکھتی ہے اس کابناؤسنگھار اپنے مرد کے لئے ہوتاہے اس عورت کے سارے ارمان اسی مرد سے جڑے ہوتے ہیں ایسا ہی شہری بھی کرتے ہیں۔

یہ صرف اس کی سوچ تھی گاؤں کی بیل گاڑی کاپہیہ شہر کی موٹر کار کے پہیئے سے بہت تیز چلتاہے یہاں عورتیں بھی چہرے پہ چہرہ چھڑھالیتی ہیں حالات کامقابلہ کرتی ہیں اپنے مسائل کوجھیلنے کے ساتھ ساتھ خود ہی حل کرتی ہیں۔ بہت سخت جسمانی محنت نہیں کرتی لیکن دماغی لحاظ سے وہ کسی گاؤں کی عورت سے کہیں آگے ہوتی ہیں۔

سادگی میں پلاوہ شخص عورت کی خوشی اس بات میں سمجھتاہے تھاکہ وہ اس کے قریب جائے گا اور عورت خوش ہوجائے گی کتنی محدود سوچ لے کروہ اس معاشرے میں تھا۔ اس کی محدود سوچ کسی کے لئے جان لیوا بھی تو ثابت ہوسکتی تھی یہ شہر تھایہاں اسے ہمدردی جتانے سے پہلے سامنے والے کی ضرورت کو بھانپنا چاہیے تھا۔ اپنی معصومیت میں وہ اگر غلط کربیٹھاتو عمر بھر معاف نہی کرے گا۔ یہ گاؤں نہیں یہاں کچھ خالص نہیں نا ہوا میں نم مٹی کی خوشبو ہے نا محبت اور خلوص۔

یہ تو شہر ہے اس شہر کی آلودگی نے سب یکسر بدل دیاہے۔ یہاں خلوص بھی خالص نہیں۔ یہاں محبت کے نام پہ کچھ نہیں ملتا یہاں بات محبت سے بہت آگے کی ہے۔