خوبصورت آنکھوں کی پلکیں ان کی محافظ، مگر پھر بھی وہ آنکھیں محفوظ نہیں۔ یہ لڑکی کے جسم کا وہی حصہ ہے جو اس پر حملوں کا سب سے پہلے اسے پیغام دیتا ہے۔
حسن کی ہوس نے باپ جیسے عظیم رشتے کو داغ دار کر دیا۔ شوہر، جو بیوی کا لباس ہوتا ہے۔ وہی کبھی دوستوں کے ساتھ مل کر نشے میں چور اپنے لباس کو بے نقاب کر رہا ہے۔
ہاں مجھے ڈر لگتا ہے انسانوں کی شکل اختیار کرنے والے درندوں سے۔ میں اس استاد کی بات کیوں کروں جس نے ہماری کالج کی سب سے خوبصورت آنکھوں والی لڑکی کو روشنیوں کے شہر کی سیر کرنے کی پیشکش کس حیثیت سے کی؟ ہمارے معاشرے میں اساتذہ والدین کا مقام رکھتے ہیں۔ ڈر لگتا ہے اس استاد سے جس نے باپ کا مقام کھو دیا۔ اگر باپ کی حیثیت رکھنے والا وہ استاد ہمارا محافظ نہیں، تو ہم جو معاشرے کی کمزور ترین مخلوق سمجھنے والی، کس کس باپ کی ہوس کا شکار ہوں گی؟
میرا سوال بس اتنا ہے آخر حوا کی بیٹیوں کا محافظ کون؟ بہت سارے سوال دب کر دفن ہو رہے ہیں اس سوال کے بعد۔ غیرت کے نام پر ماری گئی، غربت میں کہیں بھیجی گئی، قرض کی ادائگی میں تولی گئی، بیٹے، بھائی اور باپ کے قتل پر کتنی ونی بنی، جہیز کی لالچ میں کتنی دلہنیں لال ویس کی طرح لال جسم ہوئیں۔ ان سارے ظلم و ستم کا جواب تلاش کرتے نکلی تو پتا چلا ان کا دشمن کوئی اور نہیں وہ عظیم رشتے ہیں جن پر یہ نادان سب سے زیادہ بھروسا کرتی ہیں۔
میرا سوال پھر بھی وہی ہے تو پھر آخر عورت کا محافظ کون؟ معصوم بچی کو اپنی والدہ کی وفات کے بعد اپنے باپ کی عزت انہیں کے ہاتھوں لوٹنے کا غم کیسا ہوگا؟ ایک اور شرمناک واقعے نے سب عورتوں کے ذہنوں میں ایک ڈر سوار کر دیا کہ نا جانے کب ہمارے شوہر نشے میں چور دوستوں کے ساتھ مل کر اپنی عزت کا تماشا بنائے گا؟ وہ بیمار ماں جو بستر پر بےخبر پڑی اپنے ہی پیدا ہونے والے بیٹے کی ہوس سے بچنے کے لئے اسے قتل نا کرتی تو کیا کرتی؟ یہ گھر کے اندر کی داستان ہیں جو بہت کم باہر نکلتی ہیں۔ گھر کے باہر ورک پلیس کی کوئی ایک داستان نہیں جو میں یہاں بیان کر سکوں۔ ایسی داستانوں سے یہ دنیا بھری پڑی ہے۔
ہوس کی لا علاج بیماری دھیرے دھیرے ہماری نسلوں میں اپنا گھر کر رہی ہے۔ اگر باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا اپنا محافظ تو نہیں بلکہ اپنی عزت کا قاتل جب بن جائے تو؟ میں جانتی ہوں ایسے واقعات اتنے بڑے پیمانے پر نہیں مگر بہت سے دبے چھپے واقعات شاید کبھی نا کھلیں اس سوال کے جواب کے ساتھ کہ آخر عورت کا محافظ کون؟