سعدالرحمن
گزشتہ چند روز سے سوشل میڈیا پر میٹرک کا رزلٹ گردش کر رہا ہے جس کے مطابق کسی کے بھائی نے نوے فیصد نمبر حاصل کیے ہیں، کسی کا بیٹا چورانوے فیصد نمبر لیے ہوئے ہے اور کسی کے عزیز نے بانوے فیصد نمبر حاصل کیے ہیں۔ بلاشبہ اس کامیابی کے پس پردہ طلباء، ان کے والدین اور اساتذہ کی محنت ہے جس پر وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ لیکن مجھے ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ پچھلے تین چار سالوں سے اچانک نئی نسل آئن سٹائن ہوگئی ہے یا ہمارے تعلیمی نظام میں مارکس بانٹے جارہے ہیں۔
دو سال قبل کبیر والا کی ایک بچی نے نویں جماعت میں 505 میں سے 504 نمبر حاصل کر کے بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اس نے اردو سمیت تمام مضامین میں سو فیصد نمبر حاصل کیے، ماسوائے انگلش کے جس میں ایک نمبر کی کمی رہی۔ ممکن ہے یہ عالمی سطح کا ریکارڈ ہو جو باعث فخر ہوسکتا ہے لیکن میرے لیے یہ باعثِ فکر ہے۔ نمبروں کی یہ بندر بانٹ میرٹ میں تشویشناک حد تک اضافہ کا باعث بن رہی ہے جس کی وجہ سے زیادہ نمبروں اور کم نمبر حاصل کرنے والے طلباء کے درمیان واضح فرق پیدا ہوچکا ہے۔ یعنی اگر آپ پچاسی فیصد سے زائد نمبر حاصل نہیں کرتے تو آپ میرٹ کی دوڑ سے باہر ہوجاتے ہیں۔ یہی نمبرز حاصل کرنے کی مشینیں عملی زندگی میں صفر اور ان میں سے اکثریت سیدھے سادھے منطقی سوالات حل کرنے کے بھی قابل نہیں ہوتے۔
نمبروں کی اس دوڑ نے طلبا میں کے اندر ایک سراسیمگی کی پیدا کر دی ہے جس کی وجہ سے اب وہ کتابیں پڑھنے، لائبریری کا رخ کرنے اور تعلیمی استعداد بڑھانے کے دیگر ذرائع اپنانے کے بجائے ماڈل پیپرز اور معروضی سوالات پر بھروسا کرتا ہے۔ اس امر نے پرائیویٹ اکیڈمیز کی حوصلہ افزائی کی ہے اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پارہا ہے جہاں تعلیم برائے فروخت ہے۔ لوگ کہتے ہیں اب طلبا میں مقابلے کی فضا پیدا ہوچکی ہے لیکن اس مسابقت میں دیکھا گیا ہے کہ طلباء ایک دوسرے سے تعلیمی مواد چھپاتے ہیں اور سبقت لے جانے کے لیے ہر طرح کے جائز و ناجائز طریقے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ نمبروں کی اس دوڑ میں کردار سازی اور تعلیمی قابلیت بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ میں اسے ہمارے بوسیدہ تعلیمی نظام کا شاخسانہ سمجھتا ہوں جس کی وجہ سے آدھی زندگی تعلیم میں کھپانے کے بعد آپ صرف اس وجہ سے صفر قرار دیے جاتے ہیں کیوں کہ آپ کے مقابلے میں کسی اور کے نمبر زیادہ ہیں۔ اس میں قصور والدین کا بھی ہے کہ وہ اس سے قطع نظر کہ بچے نے کیا پڑھا، کیا سیکھا، اس کی شخصیت و کردار میں کتنا نکھار آیا، ان کی توجہ مارکس شیٹ کے ہندسوں تک محدود ہوتی ہے۔ اسی طرح بیشتر اساتذہ کی توجہ اور شفقت کا پیمانہ بھی بچے کے حاصل کردہ نمبر ہوتے ہیں۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچے نمبر حاصل کرنے کی دوڑ میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ وہ زندگی کی دیگر رعنائیوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔ امتحان میں کم نمبر آنے اور والدین کی بلند توقعات پر پورا نہ اترنے کی کہ وجہ سے بچہ ذہنی کوفت اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے وقت میں بچے کو والدین کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ والدین کو چاہیے کہ بچے کو حوصلہ دلائیں کہ نوے فیصد نمبر نہ آنے سے
زندگی ختم نہیں ہوگئی بلکہ دنیا ایسی کئی مثالوں سے بھری پڑی ہے جس میں اوسط درجہ کے طلبا نے دنیا میں نام کمایا۔ گزشتہ کچھ سالوں میں ایسے واقعات کی بھرمار ہوچکی ہے کہ امتحانات میں نمبر کام آنے پر والدین کی ڈانٹ سے دلبرداشتہ ہوکر طالبعلم نے خودکشی کر لی۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق مایوسی اور مستقبل سے متعلق غیر یقینی نوجوانوں میں خودکشی کی سب سے بڑی وجہ ہیں۔ ان حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایسی تعلیم دے رہے ہیں جو محض ڈگری دیتی ہے، کامیابی کے جھنڈے گاڑنے اور فاتح ہونے کا سبق سکھاتی ہے، مسابقت کی بات کرتی ہے لیکن ناکامیوں کا مقابلہ کرنا، شکست کو گلے لگانا، نامساعد حالات میں امید کا دامن تھامے رہنا اور جینا نہیں سکھاتی۔
اب وقت آگیا ہے کہ ہمیں اپنی تعلیمی نظام کے پیمانے بدلنا ہوں گے۔ یہی صورتحال رہی تو نمبر بڑھتے جائیں گے لیکن تعلیم بدستور کم ہوتی جائے گی۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ آیا اساتذہ، والدین اور تعلیمی ادارے محض اپنا روایتی کردار ادا کرتے ہوئے اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم، نمایاں نمبروں اور سنہرے مستقبل کے خوابوں کی بھٹی میں یکے بعد دیگر جھونکتے رہیں گے یا انہیں ایک متوازن، پر عزم اور فعال شخص بنانے کی سعی کریں گے۔