ایک دور وہ بھی تھا جب لڑکی اپنے باپ کی دہلیز پار کرتی تھی اور اس کے کان میں یہ سرگوشی کر دی جاتی تھی کہ خوشی میں سو دفعہ آنا لیکن کبھی اپنے شوہر سے جھگڑ کر مت آنا۔
لڑکی بھی یہ عہد باندھ کر اپنے باپ کی دہلیز پار کرتی تھی کہ کبھی اپنے ماں باپ کو شرمندہ نہیں ہونے دے گی۔ زچگی کی تکالیف ہوں یا سسرال کے خدمت سب برداشت کر لیتی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ بالکل ہی ان پڑھ یا جاہل ہو۔ دینی تعلیم اور تھوڑی بہت دنیاوی تعلیم تو دی ہی جاتی تھی۔
مجازی خدا تسلیم کرنے کے بعد سب رشتے سر آنکھوں پہ نبھائےجاتے تھے۔ بچوں کی پیدائش پہ چاچو کی خوشی دیدنی ہوتی تھی۔ دادا دادی نہال ہوئے جاتے تھے۔ مجازی خدا تو بس اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ گھر بھر کی خوشی میں اور خوش ہوجاتے تھے۔ اب بھلے زجہ خوراک کی قلت کا شکار ہو یا جسمانی مشقت کے بعد آرام کی طلب گار اس کی پرواہ کرنے والا کوئی نہیں ہوتا تھا۔
کچھ گھرانوں میںیہ رواج بھی قائم تھا کہ بچے کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے بہو کو ماں باپ کے گھر بھیج دیا جاتا تھا اور بچے کی پیدائش کے سوا مہینے بعد گھر واپسی ہوتی تھی اس دوران ہونے والے اخراجات ماں باپ ہی اٹھاتے تھے۔
غرض یہ کہ جہیز سے لے کر ہر چیز پہ پورے سسرال کا حق ہوتا تھا۔ الگ کمرہ تو دیا جاتا تھا لیکن مہمانوں کے آنے پہ بہو کا کمرہ ہی بیٹھک بن جاتا تھا۔
اس دوران شادیوں کا دورانیہ پچاس پچاس سال پہ محیط ہوتا تھا یا جب تک زندگی ہے تب تک ساتھ نبھایا جاتا تھا۔ کچھ لڑکیاں تو شوہر کے پردیس میں نوکری کرنے کی وجہ سے بےشمار تکلیفیں اور مشقت بھی برداشت کرتی تھیں۔
وہ دور کچھ الگ ہی دور تھا شادی بیاہ کی تقریب ہو یا میلاد کی محفلیں اپنے اندر رونقیں سمیٹ رکھتی تھیں۔ ہنسی مذاق بڑوں کا ادب چھوڑوں سے شفقت چہروں پہ اطمینان نظر آتا تھا۔
ہزاروں میں سے کسی ایک کی طلاق کا سننے میں آتا تھا تو گھرکی عورتوں کا منہ حیرت سے کھلا رہ جاتا تھا۔
اب آج کے دور میں بڑھتا طلاق کا رجحان اس بات کا واضح ثبوت ہےکہ معاشرہ میں کہیں کوئی خلا سرایت کر گیا ہے۔ جب کہ آج تعلیم کا بڑھتا رجحان دیکھ کر تو ایسا ہونا چاہیے کہ ہر طرف شعور اور برداشت ہو۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ معاشرے میں بڑھتا شعور غلط دو راہے پہ جا رہا ہے۔
آج کی لڑکی پڑھنے میں اتنی مصروف ہے کہ گھر داری سیکھنے کو معیوب سمجھتی ہے۔ تعلیم کا مقصد بھی اعلی نوکری کی تلاش ہوتی ہے۔ پھر جب ایک ٹھیک ٹھاک پیسہ کمانے والی لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اپنے اونچے دماغ میں اپنے آس پاس کے رشتوں کو بوجھ سمجھتی ہے۔ اپنا آرام اپنی مصروفیت کسی پہ قربان کرنا اس کے لئے انا کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
طلاق کا رجحان زیادہ تر انہی گھرانوں میں دیکھا گیا ہے جہاں خواتین کماتی ہیں۔ اپنے کمانے کے زعم میں وہ اپنے سسرال کو توکیا اپنے شوہر کو گنتی میں نہیں لاتی۔ ہر چیز کو اپنے حساب سےلے کے چلتی ہیں۔ یہیں آ کر ٹکراؤ شروع ہوتا ہے اور اکڑ آڑے آجاتی ہے۔
اس میں ماں باپ کی تربیت کا بھی عمل دخل ہے تعلیم اور پیسہ بس یہی دو باتیں دماغ میں بچپن سے بٹھائی جاتی ہیں۔ تعلیم یافتہ لوگوں سے زیادہ تعلیمی ادارے کھل گئے ہیں۔ ایک گلی میں اتنے گھر نہیں جتنے اسکول ہیں۔ بس انگلش کی دوڑ ہے۔ بچے بچیاں پڑھ تو رہے ہیں لیکن کچھ سیکھ نہیں رہے۔ برداشت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ جھڑک کر کوئی بھی رشتہ ترک کر دیا جاتا ہے تو شادی جیسا رشتہ کیسے نبھے۔
شاید یہ سوچ دماغوں میں رچ بس گئی ہے کہ مرد کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ کماتا اور گھر بسانے کے لئے کمانے والے کو برداشت کرنا مجبوری ہے لہذا گھر بنا کر رکھنا پڑے گا تو اس دور میں لڑکیوں نے پیسہ کمانا شروع کر دیا ہے۔
کہیں مجبوری حالات بھی ہے لیکن شوقیہ کمانے کے لئے گھر سےنکلنے والی خواتین زیادہ دیکھی گئی ہیں۔ کچھ نہیں تو گلی محلے کے اسکول میں نوکری کر لی۔ اب جب ذہن ہی پلٹ جائیں تو بات طلاق پہ ہی آ کر ختم ہو گی۔
میری ادنی رائے تو یہی ہے کہ چونکہ خواتین پیسہ کمانے گھروں سے بآسانی نکلنے لگی ہے لہذا شوہر کو برداشت کرنا ان کی مجبوری نہیں۔ طلاق ہو بھی جائے تو ماں باپ کا آسرا کرنے کی ضرورت نہیں۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ خواتین گھر سے نا نکلیں۔ نکلیں اور کمائیں لیکن ساتھ ساتھ اپنی سوچ کو مستحکم کریں۔ معاشرے میں رہنے کے اصولوں کو تسلیم کریں۔ قربانیاں دینے سے نہ گھبرائیں۔ انہیں پاؤں کی جوتی بننے کو نہیں کہا جا رہا بلکہ ایک ملکہ کی طرح اپنی مملکت کو سنبھال کر رکھیں۔ کہ پتھر تب تک بھاری ہوتا ہےجب تک وہ اپنی جگہ پہ ہو۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیےبلاگ کا گروپ جوائن کریں۔