وسعت اللہ خان
اگر کامیاب ہو گئے تو بفضلِ تعالٰی زورِ بازو کا کمال۔ ناکام ہو گئے تو غیروں کی سازش یا بدقسمتی۔ یہ ہے ہمارا آئینِ زندگی جو ہر شعبہِ حیات پر نافذ ہے۔
اقبال بھلے قومی شاعر سہی لیکن وہ بھی ’تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو، ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو‘ لکھنے کے باوجود ہمیں ٹس سے مس نہ کر پایا۔
سارا قصور جناح صاحب کا ہے۔ کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور۔
نیا ملک تو دلا دیا مگر دستور نہ دلایا۔ کاش ایسا نہ ہوتا تو آج پاکستان جہاں سے تہاں کے بجائے کہاں سے کہاں ہوتا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ جناح صاحب برسوں سے لاحق بیماری سے نہیں بلکہ اس صدمے میں مرے ہوں کہ میں کن لوگوں میں رہنا چاہتا تھا، یہ کن لوگوں میں رہنا پڑ رہا ہے۔
یہی سنتے سنتے میں ستاون برس کا ہو گیا کہ قبائلی لشکر اگر راستے میں ایک دن کے لیے نہ رک جاتا تو سری نگر پر قبضہ پکا پکا تھا۔
ایوب خان پینسٹھ میں عین وقت پر کمان میجر جنرل اختر حسین ملک سے لے کر یحییٰ خان کو نہ سونپتا تو کشمیر پر ہمارا قبضہ ہو جاتا۔ نواز شریف اڑنگا نہ لگاتا تو کارگل پر قبضہ کر کے دوسری طرف کے کشمیر کو دو حصوں میں کاٹ کر باآسانی مفلوج کیا جا سکتا تھا۔
پاکستان ہم نے تھوڑی توڑا وہ تو ہندؤوں نے سازش کر کے توڑا۔ البتہ سوویت یونین مردِ حق ضیا الحق نے توڑا۔ اس کی سزا ہمیں آج تک طرح طرح کی دہشت گردی کا نشانہ بنا کے دی جا رہی ہے۔ کیا ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں؟
یہ جو آج ملک معاشی مصیبت میں ہے اس کی ذمہ دار پچھلی حکومتیں ہیں۔ ہمیں گند صاف کرنے میں وقت لگے گا۔ اچھے دن بس اگلے ہی چوک پر منتظر ہیں۔
ایک بار کراچی کے سمندر سے تیل اور گیس نکلنے کی دیر ہے، غیر ملکی بینکوں میں پڑے اربوں کالے ڈالر جس روز بھی واپس آ جائیں اور بھارت جب بھی اپنی بین الاقوامی سازشیں بند کر دے ہمارے سیاسی، اقتصادی و سماجی دلدر راتوں رات دور ہو جائیں گے۔
پچھلی ہر حکومت نے اس ملک کو لوٹا مگر ہم اس ملک کو پہلی بار درست سمت میں لے جا رہے ہیں۔ گھبرانا نہیں ہے بس تھوڑا پریشان رہنا ہے۔
کل تک ہم ہاکی کے عالمگیر بادشاہ تھے۔ آج بھی ہوتے اگر یورپیئنز نے ہمارے لڑکوں کے گھٹنے زخمی کرنے کے لیے آسٹرو ٹرف نہ ایجاد کر لیا ہوتا اور ہاکی کے قوانین میں من مانی تبدیلیوں سے بھی باز رہتے۔ اس کے بعد سے ہماری ہاکی زوال پذیر ہوتی چلی گئی اور ہم آج تک اس ہاکیانہ سازش کا شکار ہیں۔
موجودہ کرکٹ ورلڈ کپ جیتنا کوئی مسئلہ نہیں تھا اگر ہمیں ابتدائی چار میچ نہ جھیلنے پڑتے۔ ان چار میچوں میں ہماری کارکردگی سے باقی ٹیمیں محتاط ہو گئیں کہ یہ تو پھر 1992 کا ورلڈ کپ جیتنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ اور پھر انھوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر لیا کہ کچھ بھی ہو جائے پاکستان کو آگے نہیں بڑھنے دینا۔ بھلے پاکستان کو روکنے کے لیے انگلینڈ کو بھارت اور نیوزی لینڈ سے ہی کیوں نہ جیتنا پڑے۔
افغانستان نے بھی حسبِ معمول کمینگی کا مظاہرہ کیا۔
اسے معلوم تھا کہ وہ ایک بھی میچ نہیں جیتے گا۔ اگر افغانستان چاہتا تو ہماری برسوں پر پھیلی میزبانی اور قربانیوں کا احسان سو رنز کے اندر اندر آؤٹ ہو کر چکا سکتا تھا۔ مگر وہ بھی بھارت کے ورغلائے میں آ کر آخری اوور تک میچ سے چمٹا رہا کہیں ہمارا رن ریٹ نہ بہتر ہو جائے۔
بنگلہ دیش نے بھی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا۔ اگر ہمارے تین سو پندرہ رنز کے جواب میں بنگلہ دیش کی پوری ٹیم پہلے دو اوورز میں صفر پر آوٹ ہو جاتی تو آج ہم سیمی فائنل کھیل رہے ہوتے۔
بارہواں کھلاڑی بھی کیا عجب کھلاڑی ہے
کھیل ہوتا رہتا ہے، شور مچتا رہتا ہے، داد پڑتی رہتی ہے
اور وہ الگ سب سے، انتظار کرتا ہے ایک ایسی ساعت کا
جس میں حادثہ ہو جائے، جس میں سانحہ ہو جائے
پھر وہ کھیلنے نکلے تالیوں کے جھرمٹ میں
ایک جملہِ خوش کن، ایک نعرہِ تحسین، اس کے نام ہو جائے
سب کھلاڑیوں کے ساتھ، وہ بھی معتبر ہو جائے
پر یہ کم ہی ہوتا ہے ۔۔۔
(افتخار عارف)