افریقی ملک کینیا میں سکول ٹیچر کی جانب سے مبینہ طور ماہواری آنے اور اس کی وجہ سے سکول یونیفارم پر لگنے والے دھبوں پر بے عزتی کے بعد ایک 14 سالہ طالبہ نے خودکشی کر لی ہے۔
مقامی میڈیا کے مطابق خود کشی کرنے والی طالبہ کی والدہ نے الزام عائد کیا ہے کہ ٹیچر کی جانب سے بے عزتی کے بعد ان کی بیٹی نے گلے میں پھندہ ڈال کر اپنی جان لے لی۔
واقعے کے بعد سکول کی عمارت کے باہر طالبات کے والدین نے احتجاج کیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کو آنسو گیس کا استعمال کرنا پڑا۔
یہ بھی پڑھیے
سوشلستان: ’ماہواری بیماری نہیں ہے‘
پاکستان: ماہواری پر اخراجات ایشیا میں سب سے زیادہ
گرل فرینڈلی ٹوائلٹ: ’ماہواری کے مسائل کے حل کی کوشش‘
سنہ 2017 میں کینیا میں سکول جانے والی بچیوں کو مفت سینٹری ٹاولز دینے کا قانون پاس کیا گیا تھا۔
تاہم ایک پارلیمانی کمیٹی اس بات کی تفتیش کر رہی ہے کہ اس پروگرام/قانون کے تحت پورے ملک میں قائم لڑکیوں کے سکولوں تک یہ سہولت کیوں نہیں پہنچ پائی۔
خودکشی کرنے والی لڑکی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹی کے ایام مخصوصہ چل رہے تھے اور اسی وجہ سے یونیفارم پر لگنے والے دھبوں کو دیکھ کر ایک ٹیچر نے اسے 'گندی' کہا اور کلاس روم سے نکل جانے کا حکم دیا۔
یہ واقعہ جمعے کے روز کینیا کے دارالحکومت نیروبی کے ایک مغربی شہر میں پیش آیا۔
مقامی میڈیا کے مطابق لڑکی کی والدہ نے کہا کہ 'اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں تھی جسے وہ سینٹری پیڈ کے طور پر استعمال کر سکتی۔ جب خون اس کے کپڑوں پر لگا تو اسے کہا گیا کہ کلاس سے نکل جاؤ اور باہر کھڑی ہو۔'
لڑکی کی والدہ نے مزید بتایا کہ اس واقعے کے بعد ان کی بیٹی گھر آئی اور انھیں اس سے متعلق آگاہ کیا مگر جب وہ (والدہ) پانی بھرنے کے لیے گھر سے باہر گئیں تو ان کی بیٹی نے خودکشی کر لی۔
اخبار ڈیلی نیشن کے مطابق لڑکی کے والدین نے اس واقعے کی اطلاع مقامی پولیس کو دی تاہم پولیس کی جانب سے کوئی خاص کارروائی نہ ہونے پر وہ مشتعل ہو گئے۔
دوسری بچیوں کے والدین کے ہمراہ انھوں نے سکول کے باہر احتجاج شروع کر دیا، سکول کا گیٹ توڑ دیا اور سٹرک بلاک کر دی۔ پولیس نے مظاہرین کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
اس واقعے کے بعد سے سکول بند ہے۔
مقامی پولیس افسر الیکس شیکونڈی کا کہنا ہے کہ لڑکی نے کن حالات کے تحت خودکشی کی اس کی تفتیش ابھی جاری ہے جبکہ سکول کی پرنسپل نے اس واقعے پر اپنا ردِعمل دینے سے انکار کر دیا ہے۔
کینیا سمیت دیگر کئی ممالک میں ماہواری کے دوران لڑکیوں کو سینٹری پیڈز اور اس سے متعلقہ ضروری اشیا تک رسائی نہیں ہوتی یا یہ ان کی قوت خرید سے باہر ہوتے ہیں۔
سنہ 2014 میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ سب صحارا افریقہ میں ماہواری کے دوران ہر دس میں سے ایک لڑکی (دس فیصد) سکول نہیں جا پاتی۔
اس رپورٹ کے مطابق ان ممالک میں ماہواری کی وجہ سے 20 فیصد لڑکیاں اپنا تعلیمی سلسلہ منقطع کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔