پٹنہ کی زیرِ آب سڑکوں پر فوٹو شوٹ پر تنقید


انڈیا کی شمال مشرقی ریاست بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں چاروں جانب پانی پھیلا ہوا ہے۔ مسلسل بارشوں کے بعد پانی کے رکنے سے سیلاب جیسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ سڑکوں پر کشتیاں چلائی جا رہی ہیں اور لوگوں کو بھاری مشینری کی مدد سے منتقل کیا جا رہا ہے۔

اس صورتحال میں جہاں ایک جانب پانی میں ڈوبے ہوئے رکشہ والے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے تو دوسری جانب پٹنہ کی زیرِ آب سڑکوں پر ایک فینسی فوٹو شوٹ کروانے والی ایک ماڈل زیرِ بحث ہے۔

تصویروں میں ماڈل سیلاب جیسی صورتحال سے لطف اندوز ہوتی نظر آ رہی ہے۔ گلیمرس انداز کی ان تصاویر کو وسیع پیمانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور انھیں ‘غیرحساس’ قرار دیا جا رہا ہے۔

لوگوں کا کہنا ہے کہ سیلاب جیسی صورتحال جشن منانے کا موقع تو نہیں ہوتی، اس میں کئی لوگ ہلاک اور بہت سے بے گھر ہو جاتے ہیں اور وہ اسے ‘فوٹوگرافر کی بے حسی’ قرار دے رہے ہیں۔

فوٹوگرافر کا مقصد

فوٹوگرافر سوربھ انوراج نے ان تصاویر کو فیس بک پر شیئر کرتے ہوئے اسے ‘آفت میں جل پری’ کا عنوان دیا ہے۔

ایک صارف نے ان تصویروں پر تبصرہ کیا ہے کہ یہ ایک احمقانہ عمل ہے اور یہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے لیکن کئی لوگ اسے تخلیقی عمل قرار دے رہے ہیں۔

دوسری جانب انوراج نے اسے صورتحال کی سنگینی کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنے کا ایک طریقہ قرار دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘میرا خیال تھا کہ لوگوں کی توجہ بہار کے سیلاب کی طرف مبذول کرائی جائے۔ جب دوسری ریاستوں میں سیلاب آتا ہے تو پورے ملک سے لوگ مدد کے لیے آگے آتے ہیں لیکن بہار میں آنے والے سیلاب کا ذکر قومی اور بین الاقوامی میڈیا میں خاطر خواہ نہیں ہوتا ہے۔

‘اگر آپ سوشل میڈیا پر سیلاب کی معمول کی تصویر شیئر کرتے ہیں تو لوگ اسے دیکھتے ہیں ‘سو سیڈ’ کہتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ لوگ تصویروں کو دیکھ کر رک جائيں، اس لیے میں نے فوٹو شوٹ کیا۔’

ماڈل صورتحال کا مذاق اڑا رہی ہے؟

اسی دوران فوٹو میں نظر آنے والی ماڈل آدیتی سنگھ کا کہنا ہے کہ اس فوٹو شوٹ کا مقصد سیلاب کی صورتحال سے دوچار لوگوں کا مذاق اڑانا نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ لوگ اسے سوشل میڈیا پر غلط طریقے سے لے رہے ہیں۔

آدیتی پٹنہ میں نیشنل انسٹیچیوٹ آف فیشن ٹکنالوجی میں پہلے سال کی طالبہ ہیں اور وہیں سے فیشن ڈیزائننگ کورس کر رہی ہیں۔

سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید کے متعلق آدیتی نے کہا: ‘میں پٹنہ کی موجودہ حالت سے بہت افسردہ ہوں۔ میں ان سب سے بہت پریشان ہوں۔ پورا پٹنہ پریشان ہے، میں بھی ہوں۔ لیکن لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم ان کا مذاق اڑا رہے ہیں اور یہ ٹھیک نہیں ہے۔ وہ ججمینٹل ہو رہے ہیں۔’

انھوں نے مزید کہا: ‘یہ فوٹو شوٹ پٹنہ میں سیلاب کی صورتحال پیدا ہونے سے پہلے کی ہے۔ اس وقت کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ صورتحال اتنی سنگین ہو جائے گی، لیکن لوگ اسے موجودہ حالات اور سوشل میڈیا کے ساتھ منسلک کر کے دیکھ رہے ہیں اور مجھے ٹرول کیا جارہا ہے۔’

مختلف طریقہ

یہ پہلا موقع نہیں جب لوگوں کی توجہ اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے انوکھے طریقے اپنائے گئے ہیں۔ اس سے قبل آندھرا پردیش کے ایک کسان نے اپنی فصل کو بری نظروں سے بچانے کے لیے کھیت میں بالی وڈ اداکارہ سنی لیونی کی تصویر لگائی تھی۔

بین الاقوامی سطح پر بھی نئے نئے طریقے اپنائے جاتے ہیں۔ پبلک ریلیشنز اور برانڈ کمیونیکیشن کے ماہر ہرشیندر سنگھ وردھن کا کہنا ہے کہ امریکہ میں ایک بار ایک فوٹو گرافر نے کوڑے کے ڈھیر کی طرف لوگوں کی توجہ مبذول کرنے اور اس کے مسائل کو سامنے لانے کے لیے ایک فینسی فوٹو شوٹ کیا تھا۔

فوٹوگرافر سوربھ انوراج کا کہنا ہے کہ انھوں نے بھی یہی طریقہ اپنایا۔ وہ کہتے ہیں: ‘غیر معمولی چیزیں اکثر لوگوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔ اگر میں کسی غریب بچے یا مصیبت زدہ فرد کی تصویر کھینچتا تو اس پر زیادہ بحث نہیں ہوتی۔ یہ چیزیں عام ہیں جو آپ اکثر سیلاب کی صورتحال میں دیکھتے ہیں۔’

لیکن پٹنہ کے سینیئر فوٹو جرنلسٹ پرشانت روی کا خیال ہے کہ ہر چیز کا ایک وقت اور ایک طریقہ ہوتا ہے۔ ایک شخص کو کیا اور کب کرنا چاہیے جب یہ ان کی فہم و ادراک پر منحصر ہے۔

وہ کہتے ہیں: ‘جہاں ابھی لوگ مر رہے ہوں وہاں جب ایسی تصاویر آئیں گی تو لوگ اس پر ضرور اپنا ردعمل ظاہر کریں گے۔ جذباتی طور متاثرین کا ردعمل تنقیدی ہوگا اور جو براہ راست متاثرین میں شامل نہیں ہیں لیکن سیلاب زدگان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں وہ اس قسم کی تصویروں پر تنقید کریں گے۔’

جبکہ ہرشیندر سنگھ کہتے ہیں کہ ‘آج ہٹس، لائکس اور کمنٹس کا دور ہے اس لیے لوگ غیرمعمولی کام کرتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں: ‘آپ ٹک ٹاک پر جائیں تو دیکھیں گے کہ وہاں کتنی ہی عجیب و غریب ویڈیوز اپ لوڈ کی جارہی ہیں اور انھیں لاکھوں ویوز مل رہے ہیں۔’

دوسری جانب پرشانت روی کہتے ہیں کہ ‘یہ بازاریت کا دور ہے، صارفیت کا دور ہے۔ اس میں کچھ بھی ممکن ہے۔’

ماڈل پریشان

بھارتی میڈیا اس فوٹو شوٹ کو ‘آتش گیر’ قرار دے رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہونے والی تنقید سے آدیتی کے اہل خانہ بھی پریشان ہیں۔ انھیں مسلسل فون اور میسجز آ رہے ہیں۔ ان سے پریشان ہوکر آدیتی نے اپنا فون بند کردیا ہے۔

آدیتی نے کہا: ‘میں ایک نچلے متوسط گھرانے سے آتی ہوں اور یہ بہار ہے۔ یہاں رائی کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ فوٹو شوٹ میرے لیے بہت مشکل تھا۔ میں سڑکوں پر ایک ایسے لباس میں فوٹوشوٹ کرا رہی تھی جو کہ عام طور پر پٹنہ کی سڑکوں پر نظر نہیں آتا۔ ‘دسیوں لوگ آپ کی طرف دیکھتے ہیں، آپ کے بارے میں برا خیال لاتے ہیں، لیکن میں فیشن سٹڈی کا طالبہ ہوں اور اس لیے ہم اس طرح کی سوچ سے بالاتر ہیں۔

‘فوٹو شوٹ کا سارا خیال فوٹو گرافر کا تھا اور میں اس کے ساتھ بطور ماڈل شامل ہوئی۔ میں صرف اپنا کام کر رہی تھی۔ اس سے زیادہ میرا ارادہ کچھ نہیں تھا۔’

کیا یہ تخلیقی آزادی ہے؟

سوشل میڈیا پر لوگ اس بات پر بھی تنقید کر رہے ہیں کہ سیلاب جیسے افسردہ ماحول میں بھی ماڈل کے چہرے پر خوشی ہے۔ فوٹوگرافر سوربھ انوراج نے اسے تخلیقی آزادی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ منفی صورت حال میں ایک مثبت رویہ ہے۔

لیکن پرشانت روی کا کہنا ہے کہ ایک فوٹو گرافر انسانی ہمدردی کے احساس اور جذبات کو ظاہر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان کا کام ماحول کے دکھ درد کو دکھانا ہے۔ ‘لیکن ابھی پٹنہ میں جو صورت حال ہے اس کا اظہار ان تصاویر نظر نہیں آتا ہے۔ اور بظاہر یہ بھی نہیں لگتا ہے کہ اس سے کسی بھی قسم کی بیداری پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے۔’

پرشانت روی کا خیال ہے کہ ‘یہ فوٹوشوٹ شہرت حاصل کرنے کے مقصد کے لیے کیا گیا تھا اور وہ اس میں کامیاب ہوگئے ہیں۔’ جبکہ ہرشیندر سنگھ کا کہنا ہے کہ کسی بھی تصویر کے ساتھ اس کے عنوان سے تصویر کا مطلب بدل جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک فنکار کی آزادی ہے کہ وہ اپنی تخلیقی سوچ کے مطابق فوٹو گرافی کا لوکیشن منتخب کرے لیکن فوٹوگرافر سیلاب زدہ علاقے کی اس متنازع تصویر میں ماڈل کے چہرے کے تاثرات اور انداز بدل سکتا تھا۔