اترپردیش کے بہرائچ ضلع کی رہنے والی ایک لڑکی کی شادی کا معاملہ اس لیے عدالت تک پہنچ گیا کیونکہ قانونی اعتبار سے لڑکي نابالغ ہے اور اسلامی شرعی قانون کے اعتبار سے اسے شادی کرنے اور اپنے خاوند کے ساتھ رہنے کا پورا حق حاصل ہے۔
لکھنو کی مقامی عدالت سے ہوتا ہوا یہ معاملہ اب سپریم کورٹ تک پہنچ گیا ہے۔ لڑکی فی الحال اترپردیش کی ریاستی حکومت کے بچوں کے فلاحی مرکز میں رہ رہی ہے۔
اس معاملے کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ نے یکم اکتوبر کی تاریخ دی ہے سپریم کورٹ نے حکم دیا ہے کہ سماعت کے دوران متاثرہ لڑکی کو بھی پیش کیا جائے۔
جسٹس این وی رمننا کی قیادت والی تین رکنی بینچ نے ریاستی حکومت کو حکم دیا ہے کہ وہ لڑکی کا پورا خیال رکھے اور سماعت کے دوران لڑکی کے علاوہ اس کے والد اور شوہر بھی حاضر ہوں۔
جس لڑکے سے اس لڑکی کی شادی ہوئی ہے وہ بھی بہرائچ کا رہنے والا ہے۔ یہ لڑکا اپنے گاؤں کی ہی اپنی ذات کی اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتا تھا لیکن جب اس لڑکی کے والد کو یہ بات معلوم ہوئی تو اس نے اس کی شادی اپنے دوست کے بیٹے سے طے کردی۔
اس واقعے کے بعد لڑکی اس نوجوان کے پاس گئی اور اگلے ہی دن یعنی 22 جون کو دونوں نے نکاح کر لیا۔
23 سالہ نوجوان کے مطابق ’ہمارے نکاح کرنے کے بعد لڑکی کے والد نے میرے خلاف نابالغ لڑکی کو اغوا کرنے کی ایف آئی آر درج کرا دی۔‘
’لڑکی نے مجسٹریٹ کے سامنے درج کرائے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور وہ میرے ساتھ رہنا چاہتی ہے۔ لڑکی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے والدین کے گھر نہیں جانا چاہتی کیونکہ وہاں اس کی جان کو خطرہ ہے۔‘
بہرائچ کی ضلعی عدالت نے 24 جون کو اس معاملے کی سماعت میں اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ لڑکی کی ابھی شادی کی عمر نہیں ہے اس لیے وہ بالغ ہونے کے تک حکومت کے بچوں کے ویلفیئر سینٹر میں رہے گی۔
لڑکے نے عدالت کے اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے لکھنو ہائی کورٹ میں عرضی دی لیکن ہائی کورٹ نے اس کی عرضی یہ کہ کر خارج کردی اور شادی کو رد کردیا کہ جووینائل جسٹس (کیئر اینڈ پروٹیکشن) ایکٹ کے تحت لڑکی کو نابالغ ہی قرار دیا جائے گا۔‘
اس فیصلے کے بعد لڑکی کو ایودھیا میں خواتین کے فلاحی مرکز میں بھیج دیا گیا۔
سپریم کورٹ نے 23 ستمبر کو سماعت کے دوران اس بات پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا کہ قانونی طور پر نابالغ لڑکی کو خواتین والے کے فلاحی مرکز میں کیوں بھیجا گیا۔ حالانکہ ریاستی حکومت نے عدالت سے کہا تھا کہ اسے بچوں کے ویلفیئر سینٹر میں بھیجا جارہا ہے۔
شادی کرنے والے جوڑے نے ہائی کورٹ کے فیصلے کو یہ کہہ کر چیلنج کیا تھا کہ انھوں نے مسلم شریعت کے مطابق شادی کی ہے اور اس لحاظ سے ان کی شادی صحیح ہے۔
شادی کرنے والے جوڑے کے وکیل دشینت پراشر نے بی بی سی کو بتایا ’لڑکی نے مسلم قانون کے تحت نکاح کیا ہے جس کے مطابق 15 سال کی لڑکی شادی کرسکتی ہے اور اس عمر میں وہ اپنی مرضی کے کسی بھی شخص سے شادی کرسکتی ہے۔‘
’ڈاکٹروں کی تفتیش کی مطابق لڑکی کی عمر 16 برس ہے۔ اس لیے شادی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ اپنی عرضی میں ہم نے یہی کہا ہے کہ نچلی عدالت کا فیصلہ غلط ہے۔ لڑکی کو اپنے طریقے سے زندگی جینے کا حق ملنا چاہیے۔‘
دشینت پراشر کا کہنا ہےکہ دراصل ہائی کورٹ میں یہ بحث ہوئی ہی نہیں کہ شریعت کے حساب سے لڑکی کی شادی کو غلط قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس بات پر بحث ہوتی تو شادی کو غیر قانونی قرار نہیں دیا جاتا۔
اس معاملے کی سماعت کے دوران جموں و کشمیر کے جے مالا معاملے کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔
دشینت پراشر بتاتے ہیں ’سنہ 1982 میں اس معاملے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ جب نوجوانوں کے جسم بڑے ہورہے ہوتے ہیں تو بالغ ہونے میں ایک دو سال کا فرق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے اور اس پر غور کیا جاسکتا ہے۔‘
اس شادی کے بارے میں مذہبی پیشواہ خالد رشید فرنگی محلی کہتے ہیں کہ جب آئین میں مذہب کی آزادی کی بات کہی گئی ہے تو اس شادی کو قانونی طور پر جائز قرار دیا جانا چاہیے۔
ان کے مطابق ’اسلام میں بالغ ہونے کی عمر وہ ہے جب بچے سائنس کے اعتبار سے بالغ ہوجائیں۔ اگر لڑکی بالغ ہے تو وہ اپنی مرضی سے وہ رہ سکتی ہے کیونکہ اس مذہبی طور پر اس بات کی آزادی ملی ہوئی ہے تو پھر اس پر قانونی بندش نہیں ہونی چاہیے۔‘
’ایک بات اور مسلم سماج میں نو عمری میں شادیوں کے واقعات کم ہوتے ہیں بلکہ یہ کہیں کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں شادیاں عام طور پر 15 یا 16 برس کی عمر کے بعد ہوتی ہیں اور اس عمر کی لڑکیوں کو بالغ خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن اس طرح کی معاملات میں میری رائے یہ ہے کہ لڑکی کی مرضی کو دیکھ کر فیصلہ کیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ایف آئی آر درج ہونے کی وجہ سے یہ فیصلہ عدالت میں چلا گیا اور عمر کا سوال اٹھا۔ عام طور پر مسلم سماج میں اس عمر میں شادیاں ہوتی ہیں بشطرکہ دونوں خاندانوں کو اس پر کوئی اعتراض نہ ہو۔
بہرائچ میں مقامی صحافی عظیم مرزا کہتے ہیں ’لڑکا اور لڑکی کا تعلق ایک ہی گاؤں سے ہے۔ دونوں کے خاندان کسان ہیں لیکن دونوں کے مالی حالت میں کافی فرق ہے۔ لڑکا صرف 9 درجے تک پڑھا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکی کے خاندان والے اس شادی کے خلاف ہیں اور لڑکی کے شادی کرنے پر قانونی کاروائی کی۔‘
اس معامے میں لڑکی کے خاندان والوں سے رابطہ نہیں ہوسکا لیکن فی الحال انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔