سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے قتل نے پاکستان میں لوگوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کیا اور یہ واقعہ دنیا بھر کی شہ سرخیوں میں رہا۔ اب ان کے بھائی کو سزا ہو چکی ہے لیکن اس سانحے کے پیچھے پاکستان میں رائج وہ طرز زندگی ہے جو قندیل جیسے لوگوں کو آزادی سے جینے نہیں دیتا۔ صحافی صنم مہر کئی برس سے قندیل کی کہانی پر کام کر رہی ہیں۔
گذشتہ جمعے پاکستان میں ایک مشہور قتل کیس تین سال بعد اپنے انجام کو پہنچا۔
ملک کی پہلی سوشل میڈیا سلیبرٹی 26 سالہ قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے جولائی 2016 میں قتل کیا تھا۔ یہ ایک نام نہاد غیرت پر کیا جانے والا قتل تھا۔ بھائی نے سوچا کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر خاندان کی بدنامی کا باعث ہیں۔
جب والدین سو رہے تھے تو اپنے گھر میں موجود بہن کو گلا گھونٹ کر مارنے کے بعد وسیم اپنے آبائی علاقے شاہ صدر دین چلے گئے جو وہاں سے دو گھنٹوں کی مسافت پر تھا اور انھوں نے وہاں جا کر چھپنے کی کوشش بھی نہیں کی۔بہت سی اطلاعات کے مطابق انھیں اگلے دن اپنے گاؤں کے مکینوں نے موٹر سائیکل پر بازار سے گزرتے دیکھا۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ انھوں نے کیا کیا ہے۔
قتل سے کچھ دن پہلے ایک اخبار میں قندیل کے پاسپورٹ کی تصویر چھپی تھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ قندیل کا اصل نام فوزیہ عظیم ہے۔ ان کے فالورز کو تب پتہ چلا کہ وہ پنجاب کے ایک گاؤں کے ایک کچے فرش کے گھر میں رہنے والی ہیں اور جیسا کہ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک امیر زمیندار کی بیٹی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔
اکتوبر 2016 میں قتل کے اس واقعے کی رپورٹ کرنے کے لیے جب میں شاہ صدر دین گئی تو گاؤں کے لوگوں نے مجھے کہا کہ انھوں نے جب قندیل کی شناخت کی خبر دیکھی تو انھیں بہت نفرت محسوس ہوئی۔ انھوں نے وسیم سے کہا کہ تمھاری بہن نکر میں گانے گا رہی ہے اور ڈانس کر رہی ہے اور تم اس کے کمائے ہوئے پیسے پر ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہو۔ ’ تم میں غیرت نہیں ہے۔‘
جب قتل کے ایک روز بعد وسیم کو گرفتار کیا گیا اور پریس کانفرنس میں ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے اپنی بہن کو کیوں قتل کیا۔ انھوں نے صاف جواب دیا کہ قتل کی وجہ اس کا طریقہ کار تھی جس طرح وہ فیس بک پر آرہی تھی۔
اس کیس کی تحقیق کرنے والی عطیہ جعفری کہتی ہیں کہ وسیم نے اعتراف کیا تھا کہ ’اس نے ہماری زندگی مشکل بنا دی تھی اور میرے پاس اور کوئی حل نہیں تھا۔‘
اب وسیم کو 25 سال قید کی سزا ملی ہے لیکن دیگر ملزمان بشمول مفتی قوی کو بری کر دیا گیا ہے۔ جون 2016 میں قندیل نے مفتی قوی پر یہ الزام لگایا تھا کہ ہوٹل میں ملاقات کے دوران مفتی قوی کا رویہ نامناسب تھا۔ پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے حکومت سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں فون کالز اور میسجز پر دھمکیاں مل رہی ہیں۔ انھوں نے ایک مذہبی عالم کو ’بے نقاب‘ کیا جو ان کے دعوے کے مطابق منافق تھے اور اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
جب قندیل کے قتل کی خبر آئی تو ایک ٹی وی چینل نے مفتی قوی سے ان کا ردعمل لیا۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ’مستقبل میں آپ جب کسی مذہبی عالم کی تذلیل کریں گے تو اس عورت کی قسمت کو یاد رکھیں گے۔‘
جمعے کو مفتی قوی کو اس قتل میں ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ جیسے ہی وہ جیل سے باہر نکلے تو ان لوگوں کی جانب سے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان پر فرد جرم بھی عائد کیا جانا ایک بہت بڑا قدم تھا، نے ان پر پھولوں کی پتیوں نچھاور کیں۔
لیکن سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے عدالتی فیصلے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
صحافی مبشر زیدی نے ٹویٹ کی ’اب ثابت ہو گیا ہے کہ مولوی ہمیشہ سزا سے بچ جائے گا چاہے جرم کچھ بھی ہو۔‘
صحافی عنبر رحیم شمسی نے لکھا ’سبق یہ ہے کہ طاقتور اور با اثر لوگ کبھی بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جاتے۔‘
جب میں سنہ 2016 میں مفتی قوی سے ملی وہ اس وقت مشکل میں تھے۔ ان کی جماعت تحریک انصاف نے ان کے لیے سرد مہری کا رویہ اپنا رکھا تھا۔ انھیں مذہبی کمیٹی سے بھی الگ کر دیا گیا تھا اور انھیں پریس میں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پولیس تحقیقات کر رہی تھی کہ مفتی قوی نے براہ راست یا بلواسطہ اپنے حامیوں کے ذریعے قندیل کے بھائیوں کو قتل کے لیے اکسایا تو نہیں۔
جمعے کے روز عدالت کے باہر صحافیوں کے ہجوم میں مفتی قوی نے کہا ’ان کے حامیوں کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں یہ انصاف کی فتح کا دن ہے۔‘
کیا ایک عورت کا ایک لفظ مرد کی عزت اور مرتبے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس پر میں تین سال پہلے ان سے ملاقات پر حیران تھی لیکن اس کا جواب مجھے جمعے کے روز ملا۔۔۔ ’نہیں۔‘
مولوی قوی نے کہا کہ انھیں میرے خلاف ایک بھی گواہ نہیں ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قندیل کا انداز لوگوں کو چبھتا تھا اور بلاشبہ بہت سے لوگ جو آج ان کو یاد کرتے ہیں، ان کے اسی انداز سے متاثر تھے۔
سنہ 2016 میں ملتان کی 25 سالہ صحافی فاطمہ نے مجھے بتایا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر قندیل کو فالو کرنا شروع کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے سوئمنگ پول میں ان کی ویڈیوز دیکھیں جہاں مرد بھی موجود تھے۔ یہ ان کا ان لوگوں کو جواب تھا جو کہتے تھے کہ وہ ناشائستگی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ وہ باغی تھیں۔‘
پاکتستان جیسے قدامت پرست معاشرے میں قندیل کی تصاویر اور ویڈیوز نامناسب تھیں۔ جیسے ہی ان کی شہرت بڑھی، ان کی پوسٹس پر لمحوں میں نفرت انگیز کمنٹس آنے شروع ہو گئے۔ ایک مرتبہ فیس بک پر کسی نے لکھا ’اگر میں نے اس عورت کو اکیلا دیکھ لیا تو میں اسے اسی جگہ قتل کر دوں گا اور اس کے حرام جسم کو چھپا دوں گا۔‘
انھوں نے ان پر تنقید کرنے والوں کو بھی الجھن میں ڈال رکھا تھا۔ وہ ایسا کیسے کر سکتی تھی جیسے وہ کر رہی تھی؟ کیسی عورت تھی جسے شرم محسوس نہیں ہوتی تھی۔ شاہ صدر دین میں میری ملاقات ایک ایسے شخص سے بھی ہوئی جو قندیل سے ہمدردی رکھتا تھا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں قندیل کے بارے میں لکھوں تو مجھے اسے ’غیرت کے نام پر قتل‘ نہیں کہنا چاہیے۔‘
وہ کہتے ہیں ’یہ عورت غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوئی۔ وہ لوگوں کی رائے کی وجہ سے قتل ہوئی۔‘جب وسیم نے قتل کیا وہ دارصل اس رائے کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
قندیل کے قتل کی خبر کے بعد ایک عورت نے ٹویٹ کیا ’قندیل بلوچ پاکستان کے لیے بدنامی تھی۔ وہ جہنم میں سزا پائے گی۔ اس کے بھائی نے ٹھیک کیا۔‘
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اندازے کے مطابق پاکستان میں قندیل کے قتل کے بعد تقریباً 1100 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔
ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی تھیں۔ ان کے تعلقات تھے، انھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی یا شوہر سے جھگڑا تھا۔ اور ان واقعات میں ایسا بھی تھا کہ کچھ خواتین کے ایسا کرنے پر کسی کو محض شک تھا جس کی وجہ سے ان کی جان لے لی گئی۔
اگر ان کی کہانی اخبار میں چھپتی بھی تھی تو وہ اندر کے کسی صفحے پر کسی چھوٹے سے پیرا گراف میں۔ لیکن لاکھوں نے قندیل کی سرکشی دیکھی تھی۔ ان کے ناقدین کے مطابق ان کا انداز انتہائی برا تھا اور اس سے بھر برا یہ کہ انھیں کوئی پروا نہیں تھی۔ مذہبی سیاسی جماعت جمعیت عمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ’اس قسم کی عورتوں کی وجہ سے ہماری سوسائٹی میں بے شرمی اور فحاشی پھیلتی ہے۔‘
شاہ صدر دین میں اب سکون ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی کی غیرت کھو جاتی ہے تو وہ اسے کسی بھی وقت واپس حاصل کر سکتا ہے۔ قندیل کے والدین نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ اسے بہت تھوڑا وقت درکار ہے اس کام کو چھوڑنے کے لیے جو وہ کر رہی ہے۔ اگر وسیم نے اسے موقع دیا ہوتا تو کیا وہ ان کی غیرت واپس لوٹانے کے لیے تعریف پا سکتی؟۔
جب فیصلہ سنایا جا رہا تھا جو پہلی ٹویٹ میں نے دیکھی وہ یہ تھی: ’اس کتیا نے وہ پا لیا جو اس کی جانب آرہا تھا۔‘
معاشرتی اقدار سے روگردانی کرنے والوں کو سخت سزا دینے کی وجہ سے غیرت کے نام پر جرائم معاشرے میں مضبوطی پکڑتے جا رہے ہیں۔ جمعے کو عدالتی فیصلے نے ملزم اور ظلم کا شکار ہونے والے کے درمیان ایک لکیر کھینچی ہے۔ شاید اسی لیے ابھی ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ ناکافی ہے۔ انصاف کا ایک متوازی نظام بھی موجود ہے، لوگوں کی رائے کی عدالت۔ اور وہاں یہ سوال موجود ہے: کہ اس قتل میں معاشرہ کس قدر شریک ہے۔ منصف اب بھی باہر ہیں۔