سندھ ہائی کورٹ نے ایک لاپتہ بلوچ نوجوان کے اہل خانہ کی درخواست پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
یہ درخواست ہانی بلوچ نامی خاتون نے اپنی اور اپنے منگیتر نسیم بلوچ کی جبری گمشدگی کے خلاف دائر کی ہے جن کے بارے میں ہانی کا کہنا ہے کہ وہ چھ ماہ سے قید میں ہیں۔
اس درخواست کی مدعی نسیم کی بہن نعیمہ زوجہ بابو علی ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ چونکہ وہ پردہ نشین خاتون ہیں، لہٰذا اس مقدمے کی پیروی کے ان کے بھائی نسیم کی منگیتر ہانی بلوچ کریں گی، جو خود بھی مبینہ طور پر ان کے ساتھ لاپتہ اور قید میں رہی ہیں۔
درخواست کے مطابق نسیم بلوچ شہید ذوالفقار علی بھٹو یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (زیبسٹ) کراچی میں قانون کے طالب علم تھے۔ ماہِ رمضان کے دوران 5 مئی کی شام نسیم کو ایک دوست نے فون کر کے ملاقات کے لیے کہا۔ جب وہ باہر گئے تو مسلح افواج کے سادہ لباس اہلکاروں نے انھیں حراست میں لے لیا اور بعد ڈفینس ویو فیز 2 میں واقع گھر لائے جہاں پورے گھر کی تلاشی لی گئی لیکن کچھ بھی نہیں ملا۔
اس آئینی درخواست میں کہا گیا ہے کہ نسیم کے ساتھ درخواست گزار یعنی ہانی بلوچ کو بھی آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایک نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا جہاں وہ طیاروں اور گاڑیوں کی آواز سن سکتی تھیں۔ انھیں نسیم سے الگ رکھا گیا لیکن ہر تین چار دن کے بعد نسیم کو لایا جاتا تھا۔ 22 جون کو انھیں رات ڈیڑھ بجے کراچی کی اقرا یونیورسٹی کے قریب لا کر چھوڑ دیا اور ساتھ میں دھمکی دی گئی کہ کسی کے ساتھ بات نہیں کرو گی۔
یہ بھی پڑھیے
’دروازے بند نہ کرو نجانے کب میرا بیٹا آ جائے‘
’ایجنسیوں کا نام کیوں لیا؟ ایف آئی آر درج نہیں ہوگی‘
بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ہانی بلوچ نے بتایا کہ انھوں نے اہلکاروں سے کہا تھا کہ ’ہمیں بتائیں ہم نے کیا جرم کیا ہے، میں ایک لڑکی ہوں، آپ مجھے کس طرح لے جاسکتے ہیں‘، تو انھوں نے کہا کہ آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا، جس کے بعد ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی۔
ہانی بلوچ کے مطابق انھیں ایک چھوٹے سے دفتر میں پہنچایا گیا جہاں کیمرے بھی لگے ہوئے تھے۔ ان کے مطابق انھوں نے سوال کیا کہ ’آپ نے کہا تھا کہ نسیم کو لے کر آئیں گے، کہاں ہے وہ؟ اسی دوران میں نے ٹیبل پر پڑا ایک شیشہ اٹھا کر زمین پر مارا، جس کے بعد وہ نسیم کو لے کر آئے۔‘
ہانی کے مطابق نسیم کے ساتھ ان پر بھی تشدد کیا جاتا، کبھی بندوق کے بٹ مارے جاتے تو کبھی تھپڑ اور کبھی بال کھینچتے تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھ پر نسیم کے سامنے اور نسیم پر میرے سامنے تشدد بھی کرتے اور کہتے کہ تسلیم کرو کہ تم کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی سے تعلق رکھتے ہو۔ ہم انھیں بار بار کہتے تھے کہ ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں ہم طالب علم ہیں۔‘
’میں انھیں کہتی تھی کہ حکومتِ پاکستان تو خود کہتی ہے کہ پڑھو لکھو، ہم دونوں نے بھی قلم اٹھایا ہے۔ اگر ہمیں کچھ کرنا ہوتا تو پڑھنے کی کیا ضرورت تھی؟ ظاہر سی بات ہے کہ ہم پہاڑوں میں گئے ہوتے۔‘
ہانی بلوچ کے مطابق انھیں ایک کمرے میں رکھا گیا تھا جہاں ایک بیڈ، الماری اور پانی کا کولر موجود ہوتا تھا۔ کمرے میں ہی واش روم تھا اور جب کھانا لے کر آتے تھے تو دروازہ کھٹکھٹاتے تھے۔ ’میں نے انھیں ایک مرتبہ کہا کہ اگر آپ کے پاس کوئی لیڈی ہے تو بھیجیں، مجھے ضرورت ہے، تو انھوں نے کہا کہ ہم لیڈیز نہیں رکھتے۔‘
ہانی نے بتایا کہ ایک کمرے میں ان کی نسیم سے ملاقات کروائی جاتی تھی۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ پانچ دن تک نسیم کو لے کر نہیں آئے تو انھوں نے کمرے میں توڑ پھوڑ شروع کردی، جس پر اہلکاروں نے کہا کہ صاحب باہر گئے ہوئے ہیں کل تک آجائیں گے، جس پر ملاقات کروائی جائے گی، لیکن پھر رات کو ہی لے کر آ گئے۔
’عید کے چوتھے دن مغرب کی نماز کے بعد نسیم کو لے کر آئے اور کہا کہ عید مبارک کر لو۔ میری آنکھیں کھول دیں لیکن نسیم کی آنکھیں بندھی ہوئی تھیں۔ میں نے کہا کہ نسیم کی آنکھیں تو کھولو مجھے اس کو صحیح معنی میں دیکھنے تو دو، جس پر ایک اہلکار نے کہا کہ اچھا یعنی آپ کو دیدارِ یار کرنا ہے۔ میں نے کہا کہ آپ غلط بات کر رہے ہیں، یہ میرا منگیتر ہے۔‘
ہانی کا کہنا ہے کہ ’نسیم کے ساتھ وہ ہمارے موبائل فون بھی لاتے تھے اور کہتے تھے کہ گھر والوں کو بتاؤ کہ آپ لوگ کوئٹہ میں ہو۔ اس طرح تین ماہ کے بعد مجھے چھوڑ دیا اور کہا کہ کسی سے بات نہیں کرنا، نسیم کو چھوڑ دیں گے، لیکن چھے ماہ ہونے کو ہیں اور وہ ابھی تک قید میں ہیں۔‘
کراچی کی ایک نجی میڈیکل یونیورسٹی میں سرجری کی طالب علم ہانی بلوچ کا کہنا ہے کہ نسیم کے فائنل ایئر کے پیپر تھے جو وہ نہیں دے سکے، اور جب وہ اپنی یونیورسٹی گئیں تو وہاں بھی غیر حاضری کا جواب مانگا گیا۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے جب یہ صورتحال یونیورسٹی انتظامیہ کو بتائی تو انھوں نے کہا کہ ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
ہانی بلوچ نے اپنی درخواست میں وفاقی اور صوبائی وزارت داخلہ، آئی جی سندھ، ڈی آئی جی اور ایس ایس پی جنوبی کو فریق بنایا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کریم خان آغا کی عدالت میں پیر کو اس درخواست کی پہلی سماعت ہوئی۔ عدالت نے 30 اکتوبر تک فریقین سے موقف طلب کرلیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں زرینہ مری نامی خاتون سمیت متعدد بار بلوچ خواتین اور بچوں کی جبری گمشدگی کی شکایت کرتی رہی ہیں مگر یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کسی بلوچ خاتون نے عدالت میں آکر اپنی گمشدگی کا دعویٰ کیا ہو۔