ابھی تک انڈیا کے اس خلائی مشن کی باقیات کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا ہے جس کا رابطہ چاند پر اترنے سے چند سیکنڈ پہلے منقطع ہو گیا تھا، لیکن سائسندان کہتے ہیں کہ ’چندریان 2 ‘ کو ناکام مشن نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کچھ سائنسدانوں نے ان خیالات کا اظہار بی بی سی ہندی کے عمران قریشی سے گفتگو میں کیا۔
جب سات ستمبر کی صبح کو وکرم نامی چاند گاڑی اپنی منزل کے بالکل قریب پہنچ چکی تھی اور اس منظر کو انڈیا کے لاکھوں لوگ براہ راست ٹی وی اور سوشل میڈیا پر دیکھ رہے تھے تو ان کی دل کی دھڑکنیں تھم سی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے:
چندریان 2:وکرم لینڈر سے رابطے کی کوششیں جاری
چندریان 2 مشن: انڈیا نے کیا کھویا کیا پایا؟
چاند پر اترنے سے قبل چندریان 2 کا زمین سے رابطہ منقطع
اور پھر اس آخری مرحلے میں، جسے ’ہوورنگ‘ یا فضا میں معلق ہونا کہتے ہیں، ایک مسئلہ پیدا ہو گیا اور جب چاند گاڑی چاند سے تقریباً صرف 2 کلومیٹر دور تھی تو سائنسدانوں سے اس کا رابطہ ٹوٹ گیا اور ان امیدوں پر پانی پھر گیا کہ انڈیا چاند پر ’سوفٹ لینڈنگ‘ کرنے والا یعنی آرام سے کنٹرول کے ساتھ اترنے والا چوتھا ملک بن جائے گا۔
اس وقت سے امریکی خلائی ادارے ’ناسا‘ کا کہنا یہی ہے کہ انڈیا کی چاند گاڑی چاند پر اتری ضرور، لیکن اس نے ’ہارڈ لینڈنگ ’ کی، یعنی بغیر کنٹرول کے دھڑام سے گری۔ ناسا کا کہنا ہے کہ ان کے خلائی جہاز سے جو تازہ ترین تصاویر موصول ہوئی ہیں، ان میں وہ مقام تو دکھائی دیتا ہے جہاں چاند گاڑی اتری، لیکن چونکہ یہ تصویریں سورج طلوع ہونے سے پہلے لی گئی تھیں، اس لیے ان میں یہ نظر نہیں آیا کی چاند گاڑی کہاں ہے۔
چندریان 2 انڈیا کے خلائی ادارے ’اِسرو‘ (انڈین سپیس ریسرچ آرگنائزیشن) کی تاریخ کا سب سے بڑا منصوبہ تھا۔ ادارے کے چیئرمین مسٹر ڈاکٹر کے سیون کہتے ہیں کہ سرکاری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق یہ مشن ’98 فیصد کامیاب‘ رہا۔ اس سے پہلے انھوں نے اس مشن کے آخری 15 منٹ کو خوفناک قرار دیا تھا۔
مسٹر سیون کو سائنسدانوں کی جانب سے تنقید کا سامنا رہا ہے اور سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ ادارے نے وقت سے پہلے ہی اپنے مشن کو کامیاب کہنا شروع کر دیا تھا، خاص طور پر اس وقت جب اس مشن کا سب سے مشکل مرحلہ ابھی باقی تھا، یعنی پروگرام کے مطابق چاند پر اترنا اور وہاں سے معلومات اکھٹی کرنا۔
اس چاند گاڑی ’وکرم‘ کا نام انڈیا کے خلائی تحقیق کے ادارے کے بانی وکرم سرابھائی کے نام پر رکھا گیا تھا اور اس پر 27 کلوگرام وزنی ایسے آلات موجود تھے جن کی مدد سے چاند کی مٹی کا جائزہ لیا جانا تھا۔ یہ آلات چاند گاڑی کے جس حصے میں لگے ہوئے تھے اسے تکنیکی زبان میں ’روور‘ (آوارہ گرد) کہا جاتا ہے۔
سائنسدان کہتے ہیں کہ اگر وکرم چاند کی سطح پر موجود دو بڑی بڑی کھائیوں کے درمیان مقررہ مقام پر اترتی تو اس پر لادا ہوا روور چاند کی سطح پر خود بخود چاند گاڑی سے الگ ہو جاتا اور پھر وہاں سے تصویریں اور دیگر معلومات یا ڈیٹا بھیجنا شروع کر دیتا۔ اس روور میں توانائی ختم ہونے میں 14 دن لگتے اور اس دوران یہ چاند گاڑی سے 500 میٹر دور تک گھوم کر سائنسدانوں کو ڈیٹا بھیج دیتا۔
لیکن انڈین خلائی ادارے سے منسلک حالیہ اور چند سابق سائنسدان مسٹر سیون کے خیلات کی تائید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چندریان 2 کو ایک ناکام مشن قرار دینا غلط ہے۔
اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ان سائنسدانوں میں سے ایک نے بی بی سی ہندی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کسی خلائی مشن کی کامیابی کو ماپنے کے لیے ہمیں اس سے حاصل ہونے والے فوائد کو دیکھنا چاہیے۔
ان کے بقول ’ہماری لانچ بالکل ٹھیک تھی، آربٹر بھی بالکل اسی طرح گھوما جیسے ہمیں توقع تھی، وکرم نے تینوں مرحلے بالکل درست طریقے سے مکمل کیے، صرف آخری مرحلے میں اس نے اس طرح کام نہیں کیا جس کی ہمیں توقع تھی۔‘
اس کے علاوہ مذکورہ سائنسدان کا کہنا تھا کہ اب ہمیں آربٹر سے ملنے والے اعداد و شمار پر بھروسہ کرنا پڑے گا۔ ’چونکہ اس پر موجود ایندھن میں سے بہت سا استعمال نہیں ہوا، اس لیے اب آربٹر کی زندگی ایک سال سے بڑھ کر سات برس ہو گئی ہے۔ اور اگر آپ کو آڑبٹر سے سات برس تک معلومات ملتی رہیں، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ٹیکنالوجی نے اپنا کام ٹھیک کیا۔‘
اِسرو کے سابق سربراہ ڈاکٹر مدھاون نائر کہتے ہیں کہ ’ صرف مشن کا ایک چھوٹا سا حصہ ناکام ہوا ہے۔ اگرچہ وکرم نے سوفٹ لینڈنگ نہیں کی، تاہم زمین سے اس کا رابطہ اس وقت منقطع ہوا جب یہ چاند کی سطح کے بالکل قریب پہنچ گیا تھا۔‘
ڈاکٹر مدھون نائر کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں اس مشن کے ہر مرحلے کو مناسب ’وزن‘ (اہمیت) دینا چاہیے اور یہ دیکھنا چاہیے کہ سوائے لینڈنگ کے، باقی تمام مراحل کامیابی سے مکمل کیے گئے۔ یوں ہمیں ’چاند کی سطح کی وہ شاندار تصاویر دیکھنے کو ملیں جو شاید اس سے پہلے عالمی برادری کو کبھی حاصل نہیں ہوئی تھیں۔‘
اس حوالے سے سائنسی موضوعات پر لکھنے والے ادیب پلو باگلا کا کہنا ہے کہ کسی سیارے پر سوفٹ لینڈنگ ایک ایسا مرحلہ ہے جسے اب تک صرف تین ممالک نے عبور کیا ہے اور اگر انڈیا یہ کام کر لیتا تو یہ اس کی ایک بہت بڑی کامیابی ہوتی۔
اگرچہ یہ نہ ہو سکا، لیکن پلو باگلا کے بقول اگر ایسا ہو جاتا تو انڈیا مریخ پر بھی مشن بھجوا سکتا اور یوں انڈیا کے لیے آئندہ اپنے خلاباز بھیجنا ممکن ہو جاتا۔
لگتا ہے کہ انڈین خلائی ادارے نے اس کے لیے پہلے سے ہی تیاری شروع کر دی ہے۔
روزنامہ ہندو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر سیون کا کہنا تھا کہ ’دسمبر 2021 تک پہلا انڈین خلا باز ہمارے اپنے راکٹ میں خلا میں پہنچ جائے گا۔ اِسرو اس منصوبے پر کام کر رہا ہے۔