بساطی، نائیکہ اور کنواری لڑکی


قدیم زمانے میں لڑکیوں کے رشتے کروانے کے لیے بساطی سے مدد لی جاتی تھی۔ بساطی یوں تو کنگھی، پراندے، رنگ برنگے زلفوں کی سجاوٹ کی اشیا بیچا کرتی لیکن یہ دراصل اس کا سائیڈ بزنس تھا۔
اصل دھندہ تو اس کا شہر بھر کی نوجوان لڑکیوں پہ نظر رکھنا تھا۔ وہ ایک گھر سے دوسرے گھر رپورٹر کے فرائض بھی انجام دینا اپنا فرض عین سمجھتی۔
تھوڑی بہت رقم کے عوض وہ تیسری، چوتھی بار دولہا بننے کے خواہش مند بزرگوں کو بھی نوخیز اور خوبصورت لڑکیوں کے ماں باپ سے ملا دیتی، با وقت ضرورت وہ چھوٹے موٹے جادو ٹونے بھی کر دیا کرتی۔ آج ہم آپ کو ایک ایسی ہی بساطی کا قصہ سنائیں گے۔
گھومتے پھرتے ایک روز بساطی ایک نائیکہ کی سی صورت والی بڑھیا سے ٹکرائی۔
جب بساطی بڈھی کے گھر پہنچی تو اس کے گھر کا دروازہ ایک ادھیڑ عمر شخص نے کھولا جس کا نکلا ہوا پیٹ اس کے گھٹنوں تک گر رہا تھا، داڑھی آدھی سفید اور جب وہ بولتا تو منہ سے بدبو کے بھبھکے نکلتے، لیکن جب اس مرد نے بساطی سے بات کی تو یہ لگا جیسے کوئی دس برس کا بچہ ہو۔
اس نے اپنی ماں کو آواز لگائی کہ اماں بساطی آئی ہے۔
پیچھے سے اسی سے ملتی جلتی لیکن انتہائی تیز اور چالاک نائیکہ نما ایک ستر برس کی بڑی بی نمودار ہوئی۔
فوراً ہی بساطی کو گھر میں بلایا اور تھوڑی بہت خریداری کے بعد بساطی سے پوچھنے لگی کہ بی بی کوئی لڑکی ہے تو بتائیں؟
بساطی نے فوراً پینترا بدلا اور کہا۔ اے بی پہلے ہی کہے دیتی ہوں پیسا پہلے بعد میں بات۔
بڑی بی۔ ارے بی بی ہم کوئی کنگلے نہیں۔ تم کو خوش کر دیں گے، ہم کو ہلکا نہ لیجو۔
بساطی۔ نہ بی بی بہت دیکھے ہیں بڑکیں مارنے والے۔ پہلے پیسے ہتھیلی پر رکھ دو۔
بی بی۔ کم بخت مری کیوں جاتی ہے؟ یہ لے ٹھونس۔
پیسے مٹھی میں لیتے ہی بساطی مسکرائی پھر پوچھا، اے بی یہ تو بتاؤ شادی کرنی کس کی ہے؟
بڑی بی۔ میرا لڑکا جس نے ابھی تیرے واسطے دروازہ کھولا، اسی کی!
لمحے بھر کو بساطی چکرا سی گئی، لیکن پیسے کی گرمی نے ہوش وحواس فوراً ہی ٹھیک کر دیے۔ سنبھل کہ بولی، نوجوان لڑکا ہے، جیسے بولو ویسی لڑکی، لڑکیوں کی لائن لگا دوں گی۔
اگلے روز ہی ماں بیٹا بساطی کے بتائے گھر چلے گئے۔ یوں ایک پر ایک تقریباً ہر دوسرے وہ کسی نا کسی گھر پائے جاتے۔
نائیکہ صورت عورت کسی امیر کی بیوہ تھی۔ سارے بچے بوڑھیا کے فسادی ہونے کی وجہ سے بھاگ گئے تھے، صرف یہ ذہنی طور پر پسماندہ لڑکا ہی تھا جو ماں کا ہر طرح سے ساتھ دیتا۔ ماں نے باؤلے کو نوکر بنا رکھا تھا۔ اور اب اسے بیوقوف بنانے کے لیے تاکہ وہ دل لگا کر گھر کے کام اور باہر کے کام کرے شادی کی ٹافی دکھا رہی تھی۔ یوں ہی رشتے دیکھتے ایک روز بساطی نے ایک ایسے گھر کی لڑکی کا بتاتی ہے جو ہر طرح سے اچھی ہے، اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے، خاندان بھی شاہی ہے، سات بھائیوں کی اکلوتی ہے۔ لیکن اس کا باپ زنداں میں ہے۔ کئی ماہ سے ایک ایسے جرم کی سزا میں جیل کاٹ رہا ہے جس کا اتا پتا وہ خود بھی نہیں جانتا۔ جس وقت ماں بیٹا ان کے گھر پہنچے وہ لوگ شدید اذیت ناک دور سے گزر رہے تھے۔ لڑکی اور اس کے بھائیوں نے ماں کو رشتے سے روکا لیکن خراب حالات اور بدنامی کے پیش نظر ماں نے رشتے کے لیے ہاں کر دی۔
بساطی خوش تھی بڑھیا کی وجہ سے اس کی کمائی لگی ہوئی تھی۔ اب رشتہ ہو جانے سے کمائی کا ذریعہ خراب ہونے کا اندیشہ بھی تھا کوئی سال بھر نائیکہ صورت عورت اور اس کا پاگل لڑکا رشتے کے بہانے دعوت کھاتے رہے۔
ایک روز بساطی پھر بڑھیا کے گھر گئی اور کہا
اے بی ! تم تو اس ملزم کی بیٹی کو کمبل ہی ہو گئیں۔ اس سے کہیں اچھی لڑکیاں بکھری پڑی ہیں۔ کہو تو بات چلاؤں؟
نائیکہ صورت بڑھیا بھی مفت کا مزدور گوانا نہیں چاہتی تھی سو دونوں نے دوبارہ نئے گھروں میں نئی لڑکیوں کو دیکھنے کا دور شروع کر دیا۔
سلسلہ آج بھی یوں ہی رواں ہے فرق محض ٹیکنالوجی کا ہے۔ ہر دوسرے گھر میں رشتے والی کے بتائے ہوئے رشتے پہ کبھی ناک میں بڑا سا کوکہ پہنے نائیکہ صورت عورت اپنے چالیس سالہ نوجوان کی انگلی تھامے لڑکی کا سی وی، جاب اور تنخواہ کا پوچھتی ہیں، اور کبھی ایک ساتھ آٹھ دس برقع پوش ایک نر کے ساتھ لڑکی کو مل کے دیکھنے آتی ہیں پھر جلدی سے نماز کے بہانے گھر میں گھس آتی ہیں اور لڑکی بے شک پی ایچ ڈی ہو سب سے خوبصورت سوال یہ ہوتا ہے “آپ نے میٹرک کس سن میں کیا تھا؟”