اماں


 ثمرین نقوی




اماّں کو گزرے چھ ماہ ہوگئے۔ اماں، میری دادی، ایک ہمہ جہت شخصیت کی مالک تھیں۔ گورا رنگ، گال پہ مسا، بال رنگے ہوئے اور پراندے میں مُقیدّ اور ہلکے رنگوں کے لباس ؛ سوچو تو لگتا ہے کہ یہیں کہیں کھڑی ہیں۔
سن 1928 میں جنم لینے والی اماں ّ نے امروہہ میں آنکھ کھولی۔ گو شادی اور ہجرت نے انھیں امروہہ کی سرزمین سے ٹنڈو جام کی زرعی یونیورسٹی میں لا بٹھایا، لیکن امروہہ ان کے اندر ہی زندہ رہا۔ اماّں کا ذکر کروں اور امروہہ کو بھول جأوں ؛یہ تو ممکن نہیں۔ امروہہ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا عکاس تھا؛رواداری، محبت اور برادری سسٹم پر مبنی رہن سہن کا مرکز، مانو محلے کے ہر گھر میں رشتہ دار ہی بستے تھے۔ یہ زمین انتہائی مردم خیز تھی اور شعر و شاعری، عزا داری و مرثیہ گوئی امروہے کی روح میں ہی بسی تھی۔ مذہب وہاں جنونیت کا نہیں، بلکہ ثقافتی اور آبائی ورثہ کا مظہر تھا۔ اسی لئے اس زمین میں پیدا ہونے ہر انسان کی سوچ قدامت پسندی نہیں بلکہ روشن خیالی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اماّں کی شخصیت انھی سب عناصر کا مجموعہ تھی۔
گو کہ اُس زمانے میں میٹرک پاس ہونا بہت بڑی بات تھی؛ لیکن امّاں کی عقلمندی، دانشمندی، اور سب سے بڑھ کر زمانہ شناسی صرف پڑھائی کی مرہونِ منّت نہیں تھی بلکہ اُن کے مطالعے، ذہانت اور مختلف حالات کو برتنے کا نتیجہ تھی۔ امروہہ کے کشادہ دالانوں والے گھروں ؛جہاں کی زندگی محدودیت کا شکار تھی، سے اٹھ کر ٹنڈو جام آنا اور اپنے شوہر کی پوسٹنگ کی وجہ سے نت نئی جگہوں میں رہنا اور طرح طرح کے لوگوں سے ملنا، یہ وہ اصلی تعلیم تھی جس نے اماّں کو ایک بہترین مجلسی اور خوش گفتار عورت کے روپ میں ڈھال دیا تھا۔ ہمارا بچپن مسز ذاکر اور مسز خان اور نجانے کتنی ہی ملنے والوں کے قصّے سنتے گزارا تھا۔ ہجرت اور غم انسان کو وہ سیکھ دیتے ہیں جو لا تعداد کتابیں بھی نہیں دے سکتیں اور اماّں نے تو یہ دونوں غم ہی اپنی زندگی میں سہہ لئے تھے { میرے تایا کی موت ناگہانی حادثہ میں ہوگئی تھی}۔
اب ایسا انسان جس میں ذہانت بھی ہو ا ور خوبصورتی کا تڑکہ بھی، پھر اکیلے رہنے اور اپنے فیصلے خود کرنے کی عادت بھی، وہ خود پسند بھی ہو جاتا ہے اور تھوڑا مشکل پسند بھی۔ اور اماں بھی ظاھر ہے بشری خصوصیت کی حامل تھیں۔ جو انسان بھی ان سے واقفیت رکھتا تھا، ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا۔ ہر ایک سے اس کی پسند کے مطابق گفتگو اور مخاطب کو سمجھنے کا سلیقہ اماں ہی کو آتا تھا۔
مرثیہ پڑھنا اور وہ بھی امروہہ کی مخصوص طرز پر، اماں نے ہی مجھے سکھایا۔ ہر مرثیہ جس کے {آخر میں اپنی پوتیوں کے نام لکھے ہوتے ہیں }اور مشکل طرزوں پہ عبور انہی کی بدولت حاصل ہوا۔ چاہے وہ ”جب پریشان ہوئی مولا کی جماعت رن میں“ میں امام حسین کی آخری نماز کا تذکرہ ہو یا ”بشر کے جسم سے رنجِ فراق ِ جاں پوچھو“ میں جوان بیٹے کو گنوا دینے پر امام حسین کا کرب ؛ سن سن کے یہ مرثیہ زبانی یاد ہو گئے تھے۔
سب کہتے ہیں کی میں بہت حساس ہوں لیکن جو انسان اتنی محبتیں پائے وہ بھلا کیسے حساس نہیں ہو سکتا ہے۔ لائٹ جائے تو راتوں کو پنکھا جھلنا، ہر وقت فرنچ فرائس بنا نے کے لئے تیار، رات کو بھی اٹھوں تو پانی دینے کے لئے اُن کو بلا جھجک آواز دینا ؛ شاید ہر کسی کے نصیب میں ایسی محبتیں ہوتی ہی نہیں۔ اور ہر ایک کے سامنے ہماری اتنی تعریفیں کہ انسان شرمندہ ہی ہو جائے اس لئے نہیں کہ مجھ میں کوئی خاص بات تھی لیکن اس لئے کہ شاید محبت ہوتی ہی ایسی ہے۔
اب کہاں ڈھونڈوں اُن بزرگوں کو اور اُن محبتوں کو؟ اماّں تو منوں مٹیّ میں جا سوئیں اور زمانے کا چلن یوں بدلاکہ چھ ماہیاں اور نو ماہیاں بدعتوں کے لبادے میں شرما کر چھپ گئی۔ یہ صرف اماّں کا نہیں میرے بچپن کا نوحہ ہے!